کراچی میں سیاسی گہما گہمی کا ویک اینڈ شروع ہوچکا ہے اور اتوار کیلئے بڑی خبر کی تیاریاں عروج پر پہنچ رہی ہیں۔ کراچی میں تحریک تحفظ ناموس رسالت کی جانب سے جلسہ عام کااہتمام کیا گیا ہے جس کے لئے تقریباً دو ہفتے پہلے سے کام جاری تھا ۔ آج سے اس میں ایک نئی جان پڑ گئی ہے۔ آج کراچی کی بیشتر مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے آنے والے نمازیوں سے خصوصی طور پر اس جلسے میں شرکت کی اپیلیں کی گئیں۔ 31 دسمبر کو ملک بھر میں ہونیوالی شٹر ڈاؤن ہڑتال کے لئے بھی اسی طرح اپیلیں کی گئی تھیں ۔
اتوار 9 جنوری کو ہونے والے جلسہ عام کے لئے ہزاروں کی تعدادمیں شہر کے اہم پبلک مقامات، شاہراہوں اور چوراہوں پربینرز آویزاں ہیں۔ پورے شہرمیں ہینڈ بلز تقسیم کئے جارہے ہیں ۔ تحریک تحفظ ناموس رسالت میں شامل جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے تمام رہائشی و تجارتی علاقوں میں لوگوں سے جلسے میں شرکت کے لئے زور دیا جارہا ہے۔ شہر کے درجنوں مقامات پر کیمپس قائم کردئیے گئے ہیں ۔
اتوار کو جلسہ عام سے قبل عوام سہ پہر ڈھائی بجے مزار قائد سے تبت سینٹر تک مارچ کریں گے۔ تبت سینٹر پر جلسے میں موجود سیاسی رہنما تقریریں کریں گے۔ ان رہنماوٴں میں جماعت اسلامی کے امیر منورحسن، جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر، جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن، مفتی منیب الرحمن، جماعت الدعوة کے امیر حافظ سعید، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے رہنماعلامہ ساجد میر، اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ ساجد نقوی، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما سمیع الحق، تنظیم اسلامی کے امیر حافظ عاکف سعید اور دیگر شامل ہیں۔
جلسے کے انعقاد کا مقصد حکومت کو یہ باور کرانا ہے کہ ناموسِ رسالت کے قانون میں ممکنہ تبدیلی کی ہر سطح پر مخالفت ہوگی۔ اگرچہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے مگر دینی و سیاسی جماعتیں اس بیان پر قطعی اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ واضح الفاظ میں اور حکومت کی جانب سے کسی بڑے فورم پر یہ قانون نہ بنائے جانے کے واضح اعلان کی منتظر ہیں۔
ایک مشہور دینی شخصیت جو سلمان تاثیر کے قتل کے حوالے سے ابھی تک کسی سے بات نہیں کرسکے انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے سے بات چیت کے دوران کہا "ایسے معاشرے میں جہاں 98 فیصد لوگ کم و بیش ایک ہی سوچ کے حامل ہوں وہاں نئی بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے طوفان میں چراغ جلانا۔ ان دنوں پاکستان میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی با ت کرنا بھی ایسا ہی ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کی جانب سے آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف بیان دینے اور قانون میں ترمیم کی محض بات کرنے پر ہی اتنا سخت رد عمل دیکھنے کو ملے گا۔اس سخت رد عمل کی وجہ یہ بھی ہے کہ تمام مسلم فرقے ناموسِ رسالت کے حوالے سے یکجا ہیں"۔
ان کا مزید کہنا تھا "یوں تو پاکستان بنا ہی مذہب کے نام پر تھا مگر سرد جنگ کے وقت اور اس کے بعد مذہبی بنیادیں اور زیادہ مستحکم ہوئیں۔ اسی دور میں قانون رسالت میں ترمیم ہوئی، اسلام میں رائج کوڑوں کی سزائیں دی گئیں، گلی گلی مدرسے کھلے،نئی سے نئی مساجد تعمیر ہوئیں، حتیٰ کہ سرکاری اداروں میں مسجد کا قیام لازمی شرط ہونے لگی، اپارٹمنٹس میں مساجد لازمی ہوگئیں۔ غرض کہ مذہب کا پرچار جس قدر اس دور میں ہوا اتنا کبھی بھی نہیں ہوا۔ پورے ایک عشرے تک ملک میں جتنی بھی بیرونی امداد ملی اس کا بیشتر حصہ مذہب کو عام کرنے کی بنیاد پر ملا"۔
نمائندے کے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا "یہ سب 'نظریہ ضرورت' کے تحت ہوا یا واقعی یہ مذہب سے لگاوٴ کا نتیجہ تھا، یہ بہت طویل بحث ہوگی لیکن اس صورتحال کا نتیجہ یہ ضرور نکلا کہ اسی دور نے طالبان کو جنم تو دیا ہی، ساتھ ساتھ لوگوں کو بہت زیادہ مذہب پرست بھی بنا دیا۔ پھر جو لوگ مذہب سے زیادہ قریب ہو گئے انہیں 'انتہا پسند' اور 'بنیاد پرست' کہاجانے لگا۔ آج جبکہ سرد جنگ کو ختم ہوئے بھی 21 سال گزر گئے ہیں، پوری قوم میں سے کوئی بھی اس ڈگر سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ اب مسلمانوں کے لئے جینا مرنا سب کچھ مذہبی عقائد کے گرد گھومتا ہے۔ ایسی صورت میں توہین رسالت میں ترمیم دیوانے کا خواب ہی ہوگی"۔