پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ملک میں ذیلی عدالتوں کے ججوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر زورد یا ہے ۔ ہفتہ کو جوڈیشل یا عدالتی اکیڈمی کے ایک اجلاس سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ضلعی عدلیہ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ وہاں انصاف کے لیے سب سے پہلے رجوع کیا جاتا ہے ۔
اُنھوں نے کہا کہ جوڈیشل اکیڈمیوں میں ضلعی عدالتوں کے ججوں کو فریقین کے ساتھ بہتر برتاؤ، کم سے کم وقت میں مقدمات نمٹانے اور عدالتوں کے انتظامی عملے پر نظر رکھنے کی تربیت فراہم کی جائے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی تربیت ناصرف عدلیہ میں شامل ہونے والے نئے ججوں بلکہ حاضر سروس ججوں کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ ملک بھر میں موثر عدالتی نظام رائج کر سکیں۔ اُنھوں نے کہا کہ مقدمات کو احسن طریقے سے نمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ججوں کو سائبر کرائم یا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق نئے قوانین سمیت دیگر مقامی اور بین الاقوامی قوانین سے آراستہ کرنے کی تربیت بھی فراہم کی جانی چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا کہ عدلیہ کی اہم ذمہ داری منصفانہ نظام عدل ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ججوں کاقانون اور آئینی اقدار پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے۔
ایک روز قبل بھی جسٹس افتخار محمد چودھری نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے کہا تھا کہ وہ ذیلی عدالتی نظام میں بدعنوانی کے خاتمے لیے موثر نگرانی کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے عدلیہ کا وقار متاثر ہوتا ہے اس لیے اس بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان میں اس وقت چار جوڈیشل اکیڈمیاں ہیں جن میں سے ایک مرکز میں جب کہ تین صوبوں میں ہیں ۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں ججوں کی کوئی تربیتی اکیڈمی موجود نہیں ہے لیکن اُن کے بقول جلد وہاں بھی اس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ان اکیڈمیوں کا مقصد ناصرف تربیت کی فراہمی ہے بلکہ عدالتی نظام میں خامیوں کی نشاندہی کرنابھی ان کا م ہے جس کی بنیاد پر عدالتوں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔