ملتان سے ایک درجن بیل فروخت کے لیے لانے والے بیوپاری کا کہنا تھا کہ لوگ 30 لاکھ کی گاڑی سے اترتے ہیں اور 20 ہزار روپے دام لگاتے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں عید الاضحیٰ کے لیے ملک کے تقریباً سبھی علاقوں میں جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں اور ہر سال کی طرح جہاں ان عارضی بازاروں میں ایک ہی سودا یعنی جانور فروخت ہوتے ہیں وہیں گاہک و بیوپاری کی روایتی تکرار بھی ہمیشہ کی طرح ویسی ہی چلی آرہی ہے۔ کچھ مختلف ہے تو صرف دام جو ہرگزرتے برس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یوں تو شہری انتظامیہ کی طرف سے جانوروں کی ایک بڑی منڈی کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن شہر کے چند علاقوں میں بیوپاریوں کی ٹولیاں چھوٹے بڑے جانوروں کے ساتھ گھومتی نظر آتی ہیں۔
منڈی میں اس سال جانور تو پچھلے برس کی نسبت زیادہ لائے گئے لیکن بیوپاریوں کا وہی شکوہ کہ لوگ آتے ہیں، دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
ملتان سے ایک درجن بیل فروخت کے لیے لانے والے راجہ بابر کا کہنا تھا کہ وہ تین دن سے منڈی میں موجود ہیں لیکن انھیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
’’30 لاکھ کی گاڑی سے لوگ اترتے ہیں اور 20 ہزار روپے دام لگاتے ہیں اب ایسا تو نہیں ہوسکتا جتنی قیمت لوگ لگاتے ہیں اتنے کی تو یہ (بیل) خوراک کھا چکے ہیں۔‘‘
انھوں نے قدرے مایوسی سے کہا کہ ’’لگتا ہے کہ بیل واپس ہی لے کر جانے پڑیں گے۔‘‘
کوئی آٹھ دس بکروں کو ایک لمبی سے رسی سے باندھ کر خود ایک طرف سائے میں بیٹھے بیوپاری سیف الرحمن کچھ مطمیئن دکھائی دیے۔ ان سے اس اطمینان کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا۔
’’اصل میں لوگوں کے پاس اسلام آباد میں جانور رکھنے کی معقول جگہ نہیں ہوتی اس لیے لوگ عید سے ایک روز قبل ہی جانور خریدتے ہیں تو امید ہے آج مال (جانور) بک جائے گا۔‘‘
راولپنڈی اور اسلام آباد کی منڈیوں کا چکر لگانے کے بعد تین بکرے خریدنے والے مجاہد حسین کے بچے بڑے شوق اور خوشی سے ان جانوروں کو ایک گاڑی پر سوار کرواتے نظر آئے۔
مجاہد نے جانوروں کی قیمتوں کو نامناسب حد تک زیادہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بالآخر گوشت کے وزن کے حساب سے بکرے خریدے ہیں۔
پروفیسر اقبال حسین نے منڈی میں داخل ہوتے ہی جانور خرید لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جانور ان لوگوں کے لیے مہنگا ہے جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ان کے بقول اس کے باوجود بھی منڈی بہرحال مہنگی ہے۔
عید قربان کی سب سے اہم اور خاص بات جانوروں کی قربانی ہوتی ہے اور مسلمان سنت ابراہیمی کی بجاآوری میں اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق جانور قربان کرتے ہیں۔ پاکستان میں عید الضحیٰ بدھ کو منائی جائے گی۔
ان منڈیوں سے جانوروں کی فروخت کے علاوہ دیگر کئی جزوقتی کاروبار بھی منسلک ہوتے ہیں جن میں جانوروں کا چارہ، ان کی آرائش کی مختلف چیزیں اور پھر انھیں ذبح کرنے کے لیے چھریاں اور ٹوکے بیچنے اور تیز کرنے والے لوگوں کی ایک معقول تعداد بھی منڈیوں میں نظر آئی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یوں تو شہری انتظامیہ کی طرف سے جانوروں کی ایک بڑی منڈی کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن شہر کے چند علاقوں میں بیوپاریوں کی ٹولیاں چھوٹے بڑے جانوروں کے ساتھ گھومتی نظر آتی ہیں۔
منڈی میں اس سال جانور تو پچھلے برس کی نسبت زیادہ لائے گئے لیکن بیوپاریوں کا وہی شکوہ کہ لوگ آتے ہیں، دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
ملتان سے ایک درجن بیل فروخت کے لیے لانے والے راجہ بابر کا کہنا تھا کہ وہ تین دن سے منڈی میں موجود ہیں لیکن انھیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
’’30 لاکھ کی گاڑی سے لوگ اترتے ہیں اور 20 ہزار روپے دام لگاتے ہیں اب ایسا تو نہیں ہوسکتا جتنی قیمت لوگ لگاتے ہیں اتنے کی تو یہ (بیل) خوراک کھا چکے ہیں۔‘‘
انھوں نے قدرے مایوسی سے کہا کہ ’’لگتا ہے کہ بیل واپس ہی لے کر جانے پڑیں گے۔‘‘
کوئی آٹھ دس بکروں کو ایک لمبی سے رسی سے باندھ کر خود ایک طرف سائے میں بیٹھے بیوپاری سیف الرحمن کچھ مطمیئن دکھائی دیے۔ ان سے اس اطمینان کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا۔
’’اصل میں لوگوں کے پاس اسلام آباد میں جانور رکھنے کی معقول جگہ نہیں ہوتی اس لیے لوگ عید سے ایک روز قبل ہی جانور خریدتے ہیں تو امید ہے آج مال (جانور) بک جائے گا۔‘‘
راولپنڈی اور اسلام آباد کی منڈیوں کا چکر لگانے کے بعد تین بکرے خریدنے والے مجاہد حسین کے بچے بڑے شوق اور خوشی سے ان جانوروں کو ایک گاڑی پر سوار کرواتے نظر آئے۔
مجاہد نے جانوروں کی قیمتوں کو نامناسب حد تک زیادہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بالآخر گوشت کے وزن کے حساب سے بکرے خریدے ہیں۔
پروفیسر اقبال حسین نے منڈی میں داخل ہوتے ہی جانور خرید لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جانور ان لوگوں کے لیے مہنگا ہے جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ان کے بقول اس کے باوجود بھی منڈی بہرحال مہنگی ہے۔
عید قربان کی سب سے اہم اور خاص بات جانوروں کی قربانی ہوتی ہے اور مسلمان سنت ابراہیمی کی بجاآوری میں اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق جانور قربان کرتے ہیں۔ پاکستان میں عید الضحیٰ بدھ کو منائی جائے گی۔
ان منڈیوں سے جانوروں کی فروخت کے علاوہ دیگر کئی جزوقتی کاروبار بھی منسلک ہوتے ہیں جن میں جانوروں کا چارہ، ان کی آرائش کی مختلف چیزیں اور پھر انھیں ذبح کرنے کے لیے چھریاں اور ٹوکے بیچنے اور تیز کرنے والے لوگوں کی ایک معقول تعداد بھی منڈیوں میں نظر آئی۔