افغانستان، علاقائی صورتِ حال پر پاکستان اور ایران کی مشاورت

فائل

پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور تہران کے درمیان بدھ کو ہونے والا یہ پہلا مشاورتی رابطہ تھا

پاکستان اور ایران کے سفارت کاروں کے درمیان بدھ کو اسلام آباد میں علاقائی صورتِ حال خاص طور پر افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں سے متعلق غیر رسمی مشاورت ہوئی۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق بات چیت میں پاکستانی وفد کی قیادت افغانستان سے متعلق دفترِ خارجہ کی ڈائریکٹر جنرل منصور احمد خان جبکہ ایرانی وفد کی قیادت ایران کی وزارتِ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل رسول اسلامی نے کی۔

بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی اور ایرانی سفارت کاروں نے اجلاس میں اس امر پر زور دیا کہ افغانستان کے دیرینہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ افغانستان کی قیادت میں کسی سیاسی عمل ہی سے حل ہو سکتا ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران نے اس بات کو تسلیم کیا کہ دہشت گردی خطے اور دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے اور افغانستان میں دہشت گردی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات، منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ اور شدت پسند گروپ داعش کی طرف سے اپنے پاؤں جمانے کی کوششوں جیسے خطرات کو افغانستان اور خطے کے ہمسایہ ممالک کے لیے چیلنج ہیں جس سے تمام ملکوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور تہران کے درمیان بدھ کو ہونے والا یہ پہلا مشاورتی رابطہ تھا جس میں دونوں ملکوں کے سفارت کاروں نے افغانستان اور خطے کے امن و استحکام کے قیام کے لیے اپنے عزم کا اظہارکرتے ہوئے ایسے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان افغانستان کے معاملے پر ہونے والی اس مشاورت سے قبل اکتوبر میں عمان کے دارالحکومت مسقط میں چار ملکی اجلاس ہوا تھا جس میں مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن کی راہ تلاش کرنے پر بات چیت کی گئی تھی۔

اس چار ملکی گروپ میں پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔

حالیہ کچھ مہینوں کے دوران بھارت اور ایران کے رابطوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بھارت اپنی تجارتی اشیا ایران کے راستے افغانستان بھیج رہا ہے جس پر پاکستانی حکام اور تاجروں کو تشویش ہے۔