پاکستان اور ترکی نے اتفاق کرتے ہوئے کہ افغانستان کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں اس بات پر زور دیا ہے کہ علاقائی قوتوں کو افغانوں کی زیر قیادت اور شمولیت سے امن عمل کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا تبادلہ پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف کے دورہ ترکی کے دوران انقرہ میں ترک قیادت اور اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتوں کے دوران کیا گیا۔
منگل کی رات گئے دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ خواجہ آصف نے ترک صدر رجب طیب ایردوان، وزیراعظم بن علی یلدرم اور اپنے ترک ہم منصب میولد چاوو سوگلو سے ملاقاتیں کیں جن میں خطے کی سلامتی سے متعلق باہمی تعاون اور رابطوں کے فروغ پر بات چیت کی گئی۔
گزشتہ ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستان نے علاقائی دوست ممالک سے سفارتی رابطوں کا فیصلہ کیا تھا جس کا مقصد ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے اور پاکستان سے متعلق 'سخت رویے' کے تناظر میں خطے کے ممالک سے تبادلہ خیال کر کے اپنی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنا بتائی جاتی ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ ایک ہفتے کے دوران چین اور ایران کا دورہ کر چکے ہیں اور ان دونوں ممالک کی طرف سے خاص طور پر افغان مسئلے پر پاکستان اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ترک صدر سے پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ خطے کے استحکام کے لیے افغانستان میں دیرپا امن اہم ہے اور پاکستان اور ترکی، افغانستان میں امن و استحکام کے لیے مل کر کام جاری رکھیں گے۔
افغانستان سے متعلق ترکی نے بھی ایک بین الاقوامی فورم قائم کر رکھا ہے جسے 'استنبول پراسس' کا نام دیا گیا ہے اور اس کے ہونے والے اجلاسوں میں افغانستان میں امن و ترقی کی بابت کئی فیصلے بھی کیے جا چکے ہیں۔
ترک ہم منصب میولد چاوو سوگلو سے خواجہ آصف کی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور بات چیت کے ذریعے دیرپا امن کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں۔
وزارتِ خارجہ کے حکام کے مطابق پاکستانی وزیرخارجہ کی آئندہ چند روز میں روس کی قیادت سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔