صدر آصف علی زرداری ایران کا ایک روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد اتوار کی صبح اسلام آباد واپس پہنچ گئے ہیں۔
سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ایرانی ہم منصب احمدی نژاد اورایران کے رہبر اعلیٰ آیت الله خامنائی سے ملاقاتوں میں پاکستانی صدر نے توانائی، تجارت اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے پر مفید بات چیت کی۔
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن ’پریس ٹی وی‘ کے مطابق صدر احمدی نژاد نے اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد سے بات چیت میں اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کو گیس کی برآمد کے لیے بچھائی جانے والی مجوزہ پائپ لائن آئندہ سال کے اختتام تک استعمال کے لیے تیار ہوگی۔ اس منصوبے کے تحت ایران اپنی پارس گیس فیلڈ سے ابتدائی طور پر ہر سال پاکستان کو دو کروڑ کیوبک میٹر سے زائد گیس برآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے مطابق ایران کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد میں شامل وفاقی وزیر برائے پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کوصدر زرداری نے تہران میں قیام کرنے کی ہدایت کی تاکہ وہ تیل و گیس کے شعبوں میں پاک ایران تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایرانی حکام سے مزید بات چیت کرسکیں۔
پاکستان میں جاری توانائی کے بحران کے تناظر میں حکام اربوں ڈالر مالیت کے اس منصوبے کو ملک کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں ۔ لیکن بین الاقوامی مبصرین ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ اُس کے تعلقات میں کشیدگی کی موجودگی میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امریکہ ملک میں بعض منصوبوں کے لیے مالی معاونت کررہا ہے جن میں دیامیر بھاشا اور گومل زام ڈیم کے علاوہ تربیلا ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کے صلاحیت میں اضافے کے منصوبے شامل ہیں۔
بجلی کی پیداوار اور صنعتی شعبے میں گیس کی تیزی سے بڑھتی ہو ئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پاکستان افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاست ترکمانستان سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر بھی بات چیت کر رہا ہے جس میں بھارت بھی ایک فریق ہے۔
سرکاری خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر سے ملاقات میں صدر زرداری نے دوطرفہ تجارت میں اضافے اور اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان اور ایران کے درمیان کرنسی تبادلہ کے معاہدے کی تجویز بھی پیش کی ۔ اُن کے بقول اس اقدام سے جہاں اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہو گی وہیں دوطرفہ تجارت کے حجم میں بھی اضافہ ہوگا۔
حالیہ ہفتوں کے دوران صدر زرادری کا ایران کا یہ دوسرا دورہ تھا۔ اس سے قبل پاکستان، افغانستان اور ایران کے صدور نے تہران میں ہونے والی ملاقات میں خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔