پاکستان کے وفاقی داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کے بیان سے یہ بات سب پر واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان میں بدامنی اور افراتفری پھیلانے کے پیچھے کون سی قوتیں ہیں لیکن ان کے بقول پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور عوام اندرونی اور بیرونی دشنموں کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کی طرف سے رواں ماہ ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے دہشت گردی کا استعمال کرنے کی بات کی تھی۔
اس بیان پر پاکستان نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے اس موقف کی توثیق قرار دیا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی "را" ملوث ہے۔
جمعرات کو خیبر پختونخواہ کے علاقے چارسدہ میں ’ایف سی‘ کے تربیت مکمل کرنے والے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ بہت سارے بم دھماکوں کے پیچھے کون سے طاقتیں ہیں۔
"یہ جو لوگ اسلام کا نام لے کر ملک (پاکستان) میں تشدد پھیلا رہے ہیں افراتفری پھیلا رہے ہیں یہ تو کسی کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ ایک غیر ملکی وزیردفاع کا بیان ہر کسی کی آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے، اس کے پیچھے پیسہ کس لگ رہا ہے، یہ وہی لوگ ہیں وہی ممالک ہیں جو پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے۔"
چودھری نثار نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں، مرکزی و صوبائی حکومتیں، مسلح افواج اور عوام یکسو ہیں اور ان کے بقول یہ سب مل کر ملک کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔
ایک روز قبل پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کی کمیٹی برائے دفاع نے بھی بھارتی حکومت کے عہدیدار کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مذمتی قرارداد منظور کی تھی جس میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ سمیت دیگر متعلقہ فورمز پر اٹھائے۔
بھارت کی طرف سے اپنے ہاں دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے علاوہ یہاں دہشت گردوں کے ذریعے درپردہ جنگ کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا رہا ہے کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اور وہ ناسور کی تمام شکلوں میں مذمت کرتا ہے۔
پاکستانی کے سیاسی و عسکری عہدیداروں کی طرف سے حالیہ ہفتوں میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" ملوث ہے۔
پاکستان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا تاحال بھارت کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے۔