پاکستان کے ایوان بالا یعنی ’سینیٹ‘ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کے اس بیان پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت دہشت گردی کا استعمال کرے گا۔
کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کمیٹی نے اس سلسلے میں ایک متفقہ قرار داد بھی منظور کی ہے۔
’’ہم نے اس قرار داد میں کہا ہے کہ یہ جو جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ بیان بھارت کے دفاعی دفاع نے نے دیا ہے اس میں تو ایک قسم کا اعتراف ہے اور ایک قسم کی تائید کی ہے کہ بھارت دہشت گردی کو اپنی ریاست کی پالیسی کا حصہ سمجھتا ہے۔۔۔‘‘
اُنھوں کہا کہ بھارت کے وزیر دفاع کا یہ بیان بظاہر اُن کی حکومت کی پالیسی کی غمازی کرتا ہے۔
سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین نے کہا کہ قرارداد میں حکومت سے یہ کہا گیا کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ سمیت دیگر متعلقہ فورمز پر اٹھایا جائے۔
’’ہم نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ اس مسئلے کو اٹھایا جائے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں، یورپی یونین میں اور (او آئی سی) میں بھی۔۔۔۔ تو یہ ایک امن کے لیے خطرہ ہے سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور بھارت اور پاکستان کے اچھے تعلقات کے لیے خطرہ ہے اور یہ جو بیرونی بین الاقوامی جنگ ہے دہشت گردی کے خلاف اس کے لیے بھی یہ خطرہ ہے۔‘‘
بھارتی وزیردفاع منوہر پاریکر نے کہا تھا کہ ’’کانٹے سے کانٹا نکالنا چاہیے‘‘ اور اُن کا ملک ممبئی میں ہوئے دہشت گرد حملے جیسے واقعہ بچنے کے لیے انتہائی اقدامات کرے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز بھی بھارت وزیر دفاع کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی ایک مشترکہ دشمن ہے اور یہ دونوں ملکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے مل کر کوششیں کریں۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے رہے کہ اُن کے ملک کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔
عہدیدار بھارت کے ان الزامات کی پہلے بھی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں جن میں کہا جاتا رہا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
لیکن حالیہ ہفتوں میں پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے۔
پاکستان کی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے حالیہ بیان پر بھارت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔