بھارتی ٹماٹر تو دو سال سے پاکستان آ ہی نہیں رہے

چندی گڑھ کی ایک سبزی مارکیٹ میں ٹماٹروں کی خرید و فروخت کا منظر (فائل)

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے اثرات تجارتی تعلقات پر بھی پڑے ہیں۔ بھارت نے پاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لے لیا ہے جبکہ پاکستان ردعمل میں درآمدی بھارتی مصنوعات پر محصولات بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔

گو کہ اس بارے میں ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے، لیکن بھارت نے پاکستانی مصنوعات پر ڈیوٹی کئی گنا بڑھا دی ہے۔

آج کل بھارتی میڈیا میں ٹماٹروں کا بہت چرچا ہے اور بھارت کے کسانوں کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان ہمارے سرخ ٹماٹر کھا کر ہمارے ہی فوجیوں کو مار رہا ہے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ عین انہی دنوں میں پاکستان میں ٹماٹر 130 روپے کلو میں فروخت ہو رہے ہیں۔

بھارت کی جانب سے پاکستانی مصنوعات پر ڈیوٹی عائد کرنے سے کیا فائدے اور نقصان ہو سکتے ہیں؛ ذیل میں انہی نکات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

پاکستان بھارت کو سمینٹ، کھاد، ٹیکسٹائل مصنوعات، معدنیات، خشک میوے سمیت دیگر مصنوعات فروخت یا برآمد کرتا ہے اور بھارت سے کپاس، پلاسٹک مصنوعات، یارن اور گرم مصالحہ درآمد کرتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ بھارتی میڈیا ٹماٹروں کا چرچا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ دو برسوں سے بھارت سے ٹماٹر اور پیاز نہیں خرید رہا ہے اور پاکستانی منڈیوں میں بھارتی ٹماٹروں کی جگہ اب ایرانی ٹماٹر لے چکے ہیں۔

گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے بھارت کو تقریباً 48 کروڑ ڈالر کی مصنوعات فروخت کی ہیں جبکہ انڈیا سے ایک ارب 80 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیا خریدیں تھیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ کے حملے کے بعد بھارت نے پاکستان سے منگوائی جانے والی مصنوعات پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں بعض حلقے بھارت سے خریدی گئی مصنوعات پر اسی نوعیت کی ڈیوٹی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے لیے ایم ایف این یا پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لینے سے پاکستان سے زیادہ انڈیا کو نقصان ہو گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب ڈیوٹی عائد کرنے سے پاکستان میں بھارت کی رہی سہی برآمدت بھی ختم ہو جائیں گی۔ لیکن، اگر پاکستان نے بھارتی مصنوعات پر ڈیوٹی عائد کی تو اس سے بھارت کو زیادہ نقصان ہو گا۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت ویسے ہی کم ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات میں خلیج اور سیاسی تناؤ کا اثر ہمیشہ عوام پر پڑتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان تجارتی پابندیاں عائد ہونے سے غیر قانونی راستوں کے ذریعے تجارت کا حجم بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان میں لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں کے مخصوص بازاروں میں انڈین کاسمیٹکس سے لے کر کپڑے تک تمام مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔

لاہور کے انارکلی بازار میں موجود پان گلی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اندرون دلی کے کسی بازار میں گھوم رہے ہوں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق، ان مارکیٹوں میں بڑی تعداد میں سامان سرحد کے دونوں جانب اسمگلنگ یا پھر دبئی اور سنگاپور کے راستے سے آتا ہے۔

ڈاکر عابد سلہری کے مطابق، دونوں ہمسایہ ملک ایک دوسرے کے لیے بڑی تجارتی منڈیاں ہیں اور سیاسی تناؤ سے تجارتی تعلقات کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

بھارت نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کے تحت 1996 میں پاکستان کو ایم ایف این کا درجہ دیا تھا، جسے گذشتہ ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن پاکستان نے تاحال بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ نہیں دیا ہے۔ 2011 میں پاکستان کی کابینہ نے اس سلسلے میں اصولی منظوری دی تھی لیکن اس بارے نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا تھا۔

پاکستان اور بھارت کی اس حالیہ کشیدگی میں بھارتی میڈیا کی جانب سے ٹماٹر کے تذکرے نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ کب تک ڈیڑھ ارب سے زائد افراد پر مشتمل دو بڑی منڈیاں چند انتہا پسند عناصر کے وجہ سے کاروباری مواقع ضائع کرتی رہیں گی۔