پاکستان اور بھارت کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات

FILE -- Sandhill cranes begin a playful hopping and leaping as the sun rises on the Platte River in central Nebraska, a staging location on one of the world's largest migrations.

امریکہ کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے بھی حالیہ ہفتوں میں ایسے بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔

پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک دوسرے پر دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات سے دوطرفہ تعلقات میں مزید کشیدگی آئی ہے۔

رواں ہفتے کے دوران بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے ایک سے زائد مرتبہ پاکستان کا نام لیے بغیر یہ الزام لگایا گیا کہ جنوبی ایشیا کا ایک ملک خطے میں ’’دہشت گردی‘‘ برآمد کر رہا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے یہ بیان جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کے لاؤس میں ہونے والے سربراہ اجلاس کے موقع پر دیا، جب کہ اس سے قبل اُنھوں ایک ایسا ہی بیان چین میں ہونے والے ’جی 20‘ سربراہ اجلاس کے دوران بھی دیا تھا۔

بھارتی وزیراعظم کے اس بیان پر جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جواباً بھارت پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔

نفیس ذکریا نے کہا کہ ’’پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔۔۔۔ ایسے شواہد دستیاب ہیں کہ ہمارا ایک پڑوسی ملک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردی میں ملوث ہے۔۔۔ وہ ملک پاکستان میں دہشت گردوں کو مالی اعانت فراہم کرتا ہے۔‘‘

امریکہ کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے بھی حالیہ ہفتوں میں ایسے بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔

پشاور یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر اور تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کو سخت بیانات سے گریز کرنا چاہیئے۔

اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں سول سوسائٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی کے لیے کردار ادا کرے۔

’’جو ذمہ دار دانشور ہیں، سول سوسائٹی کے اوپر ایک ذمہ داری آتی ہے کہ وہ لوگوں کا رجحان تبدیل کریں اور بہتر ہے کہ ایسی سوچ کو سامنے لایا جائے جس سے دونوں ممالک جو ہیںٕ کشیدگی سے گریز کریں، الزامات سے گریز کریں، الزامات سے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی تسلسل متاثر ہو گا اور اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

جوہری طاقت کے حامل جنوبی ایشیا کے دو ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی میں اضافے کا آغاز بھارت کے زیر انتظام کشمیر ہونے والی جھڑپوں میں بڑی تعداد میں کشمیریوں کی ہلاکت کے بعد ہوا۔

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جولائی کے پہلے عشرے میں ایک علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی بھارتی سکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں مارا گیا تھا جس کے بعد وہاں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا۔

بھارت برہان وانی کی ہلاکت کو اپنی سکیورٹی فورسز کی ایک اہم کامیابی قرار دیتا ہے جب کہ پاکستان کی طرف سے برہان وانی کے قتل کی مذمت کی گئی۔

بھارت کا موقف رہا ہے کہ کشمیر اُس کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان اس میں مداخلت کر رہا ہے جب کہ پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صورت حال دو ماہ سے زائد کا وقت گزرنے کے باوجود کشیدہ ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں مارے جانے والوں کی تعداد 70 سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ سینکڑوں کی تعداد میں کشمیری زخمی بھی ہوئے۔

پاکستان نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی صورت کو اجاگر کرنے کے لیے نا صرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو خط لکھا بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے اسلام آباد میں تعینات سفرا کو اس بارے میں تفصیلی بریفنگ بھی دی۔

حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے 22 اراکین پارلیمان کو منتخب کیا جنہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ وہاں جا کر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال کو اجاگر کریں۔

بھارت پاکستان کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔