امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، مورگن اورٹیگس نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں ’’کوئی تبدیلی نہیں آئی‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’کشمیر کے معاملے پر امریکہ کو تشویش ہے‘‘۔ تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہوئے، ترجمان نے کہا کہ امن اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان براہ راست بات چیت کریں۔
خاتون ترجمان نے یہ بات جمعرات کے روز امریکی محکمہ خارجہ کی میڈیا بریفنگ میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
ان سے پوچھا گیا آیا امریکہ کی قائم مقام معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز، معاون وزیر خارجہ جان سلیوان اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد کے دورہ بھارت کا تعلق کشمیر کے معاملے پر کشیدگی میں کمی لانے کے حوالے سے ہے؟
ترجمان نے کہا کہ امریکی سفارتی حکام کا بھارت اور پاکستان کے ساتھ رابطہ روزانہ کی بنیاد پر رہتا ہے، اور یہ کہ یہ روایتی دورے ہیں جن کا پروگرام بہت پہلے ترتیب دیا گیا تھا۔
مورگن اورٹیگس کا جواب اثبات میں تھا جب ان سے سوال کیا گیا آیا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی دوحہ میں جاری افغان امن عمل بات چیت پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر میں کشیدگی کم ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی، انھوں نے کہا کہ امن معاہدہ طے کرنے کے لیے قطر میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اپنے ٹوئیٹ میں ایلس ویلز نے چند روز قبل اس بات کی وضاحت کی کہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے سے قبل بھارت نے امریکہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔
ان سے پوچھا گیا تھا کہ پیر کے روز کشمیر کے بارے میں بھارت کے فیصلے اور وزیر اعظم عمران خان کے اپنے پارلیمان میں خطاب کے بعد، کیا امریکی وزیر خارجہ نے بھارت اور پاکستان کے اپنے ہم منصبوں سے رابطہ کیا ہے۔
مورگن اورٹیگس نے کہا کہ ’آسیان‘ کی تنظیم کے اجلاس میں جین شنکر سے ملاقات ہوئی، جب کہ مائیک پومپیو نے کئی ٹیلی فون کالز کی ہیں۔ وہ اپنے ہم منصبوں سے روزانہ کی بنیاد پر بات کرتے ہیں؛ اور یہ کہ بھارت اور پاکستان سے ہمارے کئی رابطے رہتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ’’کشمیر ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کئی معاملات ہیں جن کے بارے میں ہم بھارت اور پاکستان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ میں یہ کہوں گی کہ محکمہ خارجہ جنوب مشرقی ایشیا کے بارے میں قریبی رابطہ رکھتا ہے‘‘۔
یہ معلوم کرنے پر آیا کشمیر سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے، ترجمان نے کہا کہ ’’نہیں۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘‘۔ بقول ان کے ’’اگر یہ ہوتی، تو بھی میں اس کا یہاں اعلان نہ کرتی۔ لیکن، نہیں۔ کوئی تبدیلی نہیں آئی‘‘۔
کشمیر میں گرفتاریوں اور پابندیوں سے متعلق اطلاعات کے بارے میں سوال پر،
مورگن اورٹیگس نے کہا کہ کشمیر میں گرفتاریوں اور پابندیوں سے متعلق رپورٹیں موصول ہوئی ہیں۔
اس سوال پر کہ پاکستان کے وزیر اعظم (بھارتی زیر انتظام) کشمیر میں ’’نسل کشی‘‘ کا الزام لگا رہے ہیں۔ کیا امریکہ کے خیال میں وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے؟ ترجمان نے کہا کہ ’’میں اس سے آگے نہیں جاؤں گی، چونکہ یہ ایک نازک معاملہ ہے، جس کے بارے میں ہم ان سے بات کرتے ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’دنیا کے کسی بھی خطے سے متعلق ایسی خبریں آتی ہیں، تو ہم ہمیشہ لوگوں سے یہی کہتے ہیں کہ وہ قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی حرمت اور بین الاقوامی ضابطوں کی پاسداری کریں۔ ہم لوگوں سے یہی کہتے ہیں کہ امن اور سیکورٹی کو برقرار رکھیں اور براہ راست بات چیت کریں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’جموں و کشمیر سے حراست میں لیے جانے اور پابندیاں لگائے جانے کی رپورٹیں ملی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ صورت حال کا انتہائی باریک بینی سے مشاہدہ جاری رکھا جا رہا ہے‘‘۔
ادھر، امریکہ طالبان مذاکرات کے بارے میں ایک اور سوال پر، محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ دوحہ بات چیت میں ’’پیش رفت ہو رہی ہے‘‘۔
عمران خان کے دورہ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے، ترجمان نے کہا کہ ’’افغانستان امن عمل مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کا کردار بہت کلیدی ہے‘‘۔
ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں امن قائم ہونا امریکہ کے نیٹو اتحادیوں، پاکستان، بھارت، چین اور دیگر علاقائی ملکوں کے لیے اہمیت کا باعث ہوگا، اور یہ کہ اس ضمن میں پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ ایشیا پر سوال کے جواب میں، مورگن اورٹیگس نے کہا کہ معمول کے مطابق، وہ آئے دن اپنے ہم منصبوں سے بات کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے حوالے سے، ترجمان نے کہا کہ کئی ایک معاملات ہیں جن پر بھارت اور پاکستان سے قریبی رابطہ رہتا ہے۔