پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان نیپال میں ہونے والے سارک سربراہ اجلاس میں باضابطہ ملاقات تو نہیں ہوسکی لیکن جمعرات کو اجلاس کی اختتامی تقریب میں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے سے مصافحہ اور خوشگوار انداز میں رسمی جملوں کا تبادلہ کیا۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی ملکوں کے وزرائے اعظم کے مصافحے کو بھارت اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ایک بڑی خبر کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان اکبرالدین کا کہنا ہے دونوں رہنماؤں میں رسمی جملوں کے تبادلے کا مطلب مذکرات ہر گز نہیں ہے۔
پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ بھارت نے سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات یکطرفہ طور پر منسوخ کیے اور اب مذاکرات کی بحالی کا انحصار بھارت پر ہے۔
دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے سارک سربراہ اجلاس کے موقع پر دیگر رکن ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں لیکن ان دونوں کی آپس میں کوئی باضابطہ ملاقات نہ ہوسکی۔
جمعرات کو جنوب ایشائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون کے اجلاس کے اختتام پر رکن ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں ایک معاہدے پر دستخط بھی ہوئے۔
دو روزہ اجلاس کے دوران زیادہ وقت ذرائع ابلاغ پر خطے کے دو اہم ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ غالب نظر آیا اور کانفرنس کی روایتی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ ان کا ملک خطے کی ترقی کے لیے امن چاہتا ہے تاکہ عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی آسکے۔
"ہم بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم خطے میں ترقی کے لیے امن چاہتے ہیں۔ اس خطے کے تمام ممالک کو غربت کے مسئلے کا سامنا ہے۔ ہمیں اپنے داخلی اقتصادی استحکام اور ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم نواز شریف نے ایک روز قبل اپنی تقریر میں کہا تھا کہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہیئں۔"
سارک سربراہ اجلاس کے اختتام پر اعلان کیا گیا کہ 2016ء میں تنظیم کے انیسویں سربراہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کرے گا۔