بھارت ہائی کمیشن کے دو اہل کاروں کو جنہیں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سڑک کے حادثے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بنا پر پولیس نے پیر کو حراست میں لے لیا تھا، اُنہیں پیر کی شام کو رہا کر دیا گیا ہے۔
اس بات کی تصدیق اسلام آباد پولیس کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کی ہے۔ تاہم پاکستان کی دفترِ خارجہ کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
قبلِ ازیں پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف اسلام آباد پولیس کو لکھے گئے مبینہ خط میں ان اہل کاروں کی شناخت دویمو براہما اور پال سیلوا داس کے طور پر کی گئی ہے۔
خط کے مطابق ان دونوں اہل کاروں کا تعلق بھارتی ہائی کمیشن کے غیر سفارتی عملے سے ہے اور وہ دونوں 2017 میں بھارتی ہائی کمیشن میں خدمات سر انجام دینے کے لیے پاکستان پہنچے تھے۔
اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ کے پاس درج پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک گاڑی نے اسلام آباد کے خیابان سہروردی کے فٹ پاتھ پر ایک شخص کو مبینہ طور پر کچل کر شدید زخمی کر دیا اور اس گاڑی میں دو افراد سوار تھے اور مبینہ حادثے کے وقت اس گاڑی کو ہائی کمیشن کا ایک اہلکار پال سیلوا داس چلا رہا تھا۔
پولیس کے مطابق جب حادثے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ اکھٹے ہو گئے تو اس دوران بھارتی ہائی کمشن کے اہلکاروں نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے اس دوران انہیں حراست میں لے لیا اور ان کی گاڑی کو قبضہ میں لے لیا۔ پولیس نے بھارتی اہل کار سے جعلی کرنسی بھی برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
تاہم تھانہ سیکرٹریٹ کے ایک پولیس عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے بھارتی ہائی کمشن کے ان دو اہل کاروں کو پیر کی شام 7 بجے رہا کر دیا گیا اور پولیس نے پاکستانی دفتر خارجہ کی موجودگی میں ان اہل کاروں کو بھارتی ہائی کمشن کے فرسٹ سیکرٹری کے حوالے کیا۔
قبل ازیں بھارت کے سفارتی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشن میں تعینات دو اہل کار پیر کو اسلام آباد سے لاپتا ہو گئے ہیں۔ بھارتی ہائی کمشن نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی کہ اُن کے دو اہل کار آج صبح سے لاپتا ہیں اور یہ معاملہ پاکستانی حکام کے سامنے اٹھایا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھارت نے نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمشن کے ویزا سیکشن میں کام کرنے والے دو اہل کاروں پر جاسوسی کا الزام عائد کیا تھا اور مبینہ طور پر اُنہیں حراست میں لے کر ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے ملک سے بے دخل کر دیا تھا۔
پاکستان نے بھارت کے الزمات کو مسترد کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی حکام نے پاکستانی ہائی کمشن کے دو اہل کاروں کو غلط اور بے بنیاد الزامات پر حراست میں لیا تھا۔
یہ معاملہ ایک ایسے وقت سامنے آیا تھا جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں جس کے اثرات دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات سے بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز سے منسلک بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاملات عمل اور ردعمل کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اگر ایک ملک کی طرف سے کوئی کارروائی ہوتی ہے تو دوسرا جواب ضرور دیتا ہے۔
نجم رفیق نے کہا کہ جہاں تک بھارتی ہائی کمشن کے اہلکاروں کے لاپتا ہونے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں فی الحال تو اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازہ یہ ہے کہ شاید وہ پاکستان میں مبینہ طور پر کسی مشتبہ یا غیر قانونی کارروائی میں ملوث ہوں اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہو۔
نجم رفیق نے کہا کہ جب تک پاکستانی حکام اس بارے میں اپنا مؤقف نہیں دیتے، ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ معاملہ کیا ہے۔
البتہ نجم رفیق کے بقول بھارت اور پاکستان میں ہمیشہ سے ہی بد اعتمادی کا ماحول رہا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ صرف اعتماد میں فقدان کی یہ فضا برقرار رہی ہے بلکہ اس وقت بھی نئی دہلی اور اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ گزشتہ سال اگست میں بھارت کی جانب سے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کا ماحول ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نجم رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے بقول جب تک اسلام آباد اور بھارت کے درمیان اعتماد کی فضا بحال نہیں ہوتی، ایسا ہونا مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان بھارت سے بات چیت سے حل کرنے پر تیار ہیے لیکن ان کے بقول بھارت اس وقت تیار نہیں ہے۔ اور اس وقت ان کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر رسمی سفارتی چنیلز بھی بند ہیں۔
نجم رفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارت کاروں کا معاملہ ہوں یا دیگر دیرینہ معاملات، دونوں ملکوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور معاملات کو گفت و شنید سے حل کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔