امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اب توجہ جیو اسٹریٹیجک پالیسی سے تبدیل ہوکر جیو اکنامک پالیسی پر مرتکز ہو رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی اور امریکی رہنماؤں میں ہونے والی گفتگو میں تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
اس خیال کا اظہار واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے زیرِ اہتمام ایک مباحثے میں بات کرتے ہوئے مک لارٹی ایسوسی ایٹس سے وابستہ صفیہ غوری احمد نے کیا۔ صفیہ احمد کا کہنا تھا کہ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں تجارتی اور کاروباری روابط کو وسعت دینے پر بات ہوئی۔
صفیہ احمد نے امریکہ پاکستان تعلقات میں حائل رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے چین کو ایک بڑا عنصر قرار دیا، لیکن کہا کہ پاکستانی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو جیو اکنامک معاملات کی طرف لے کر جائے۔
صفیہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کی یہ کوشش درست ہے لیکن اس کے لئے پاکستان اور امریکہ کو بالخصوص افغانستان کے معاملے میں سیکیورٹی اور اسٹریٹیجک معاملات پر ایک اتفاقِ رائے تک پہنچنا ہو گا، اور اگر ایسا نہ سکا تو دونوں ملک ، بقول ان کے "ایک دوسرے کو جو بھی اشارے دیتے رہیں گے وہ پوری طرح سے ایک دوسرے کی سمجھ میں نہیں آئیں گے"۔
کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا نے پاکستانی معیشت کو کیسے متاثر کیا ہے، اس بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر معیشت عزیر یونس نے کہا کہ پاکستانی معیشت پہلے ہی سال 2018 میں خسارے کے دو بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد خاصی سست روی کا شکار تھی،ایسے میں وبائی مرض نے پاکستانی معیشت کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کے مرتب کردہ اثرات نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ معیشت کو متحرک رکھنے کے لیے عالمی قرض کی ادائیگی میں ریلیف حاصل کریں اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے پروگرام کو وقتی طور پر موخر کر دیں۔ عزیر یونس کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستانی معیشت میں بحالی کے اثرات محسوس کئے جا رہے ہیں اور اسی کے ساتھ پاکستان موخر کئے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام میں واپس جا رہا ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے پر بات کرتے ہوئے روزنامہ ڈان کے بزنس ایڈیٹر خرم حسین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں اور وہ جب سامنے آئیں گی تو معلوم ہو جائے گا کہ سمجھوتہ کن کن باتوں پر ہوا ہے اور یہ کہ اس سمجھوتے کی بنیاد پر پاکستان نے کیا اقدامات اٹھانے ہیں۔
خرم حسین کا کہنا تھا کہ حکومت کے اندر ہی دو مختلف سوچیں ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ ایک طرف تو یہ سوچ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں نیفٹا ایکٹ میں ترامیم کرنے کے لیے کہا گیا ہے جو کہ بہرحال کرنی پڑیں گی۔ دوسری سوچ اُن افراد کی ہے جنہوں نے آگے چل کر الیکشن لڑنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ معیشت کو ترقی دینے کی ضرورت ہے اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے اندر رہتے ہوئے یہ نہیں ہو پائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس سلسلے میں تضاد کا شکار ہے۔ آئندہ دنوں میں یہ دیکھنا ہو گا کہ بجٹ میں حکومت کی ترجیح بالخصوص فوج کی طرف رہتی ہے یا آئی ایم ایف کی طرف؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب معیشت پر اثر انداز ہو گا۔
خرم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی ساری توقعات چین سے وابستہ نہیں کر رکھیں۔ ان کے بقول، آج سے چند سال پہلے پاکستان کا جھکاؤ چین کی طرف تھا، لیکن اب اس میں تبدیلی آئی ہے اور پاکستان امریکہ سمیت دیگر مغربی ملکوں کے ساتھ بھی اپنے معاشی تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کار کسی بھی ملک میں اپنا سرمایہ اس وقت لگاتے ہیں جب اس ملک کی پالیسیاں مستحکم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگ سرمایہ کاری سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ معاشی پالیسیوں میں غیر یقینی کی کیفیت ہیں۔ بقول ان کے، اس کی وجہ کسی بھی نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ تبدیل ہوجانے والی معاشی پالیسیاں ہوتی ہیں۔۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار ایک محفوظ پالیسی رکھنے والے ملک کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
خرم حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اس بات کا خواہش مند ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کی تعریف نئے سرے سے لکھی جائے، اور کرونا وائرس سے پہنچنے والے مالی نقصانات سے نکلتے ہوئے پاکستان اب یہ تعلقات اپنے معاشی معاملات کی بنیاد پر استوار کرنے کا خواہشمند ہے۔
پائی اِن دا سکائی نامی چھوٹے کاروبار سے منسلک نائلہ نقوی نے پاکستان میں چھوٹے کاروباروں کو درپیش مسائل پر بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کاروبار کرنے والے طبقے کو ٹیکس کے کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ ان کے بقول چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان پر کتنے ٹیکس بالواسطہ اور کتنے براہ راست لگائے جا رہے ہیں۔ ٹیکس کے ایسے ہی حوصلہ شکن ضوابط بڑے کاروباروں پربھی لاگو ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بڑے کاروباری ادارے پاکستان آںے سے گھبراتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کاروبار کے لئے سازگار ملک بنانے کا کام ٹیکس کے نظام میں آسانیاں پیدا کئے بغیر ممکن نہیں۔