پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے کسی بھی شخص کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کرنے والے کے لیے موجودہ سزا کو مزید سخت کرنے کی تجویز دی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے یہ تجویز ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب حال ہی میں سپریم کورٹ کی طرف سے مسیحی خاتون کو توہینِ مذہب کے ایک مقدمے میں بَری کرنے کے فیصلے کے خلاف بعض مذہبی گروپوں نے احتجاج کیا اور بعض شخصیات کے خلاف کفر کے فتوٰی جاری کیے گیے ہیں۔
اسی تناظر میں منگل کو چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی سربراہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران نے ایک سوال کے جواب میں، قبلہ ایاز کہا کہ کسی بھی شخص کو کافر قرار دے کر قتل کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’پیغام پاکستان‘ کے ذریعے تمام علما متفقہ طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ کسی کو واجب القتل قرار دینا اور کفر کے فتویٰ لگانا کسی فرد یا گروہ کا کام نہیں ہے اور پاکستان کے ضابطہ فوجداری میں اس کی سزا بھی موجود ہے اور یہ تجویز دی گئی ہے کہ اس سزا کو زیادہ سخت بنایا جائے۔
پاکستان میں قوانین سازی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے تجاویز لی جاتی ہیں تاکہ کوئی بھی قانون شریعت سے متصادم نہ ہو۔
یاد رہے کہ پاکستان کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما اور مذہبی شخصیات نے گذشتہ سال متفقہ طور پر ایک فتویٰ جاری کیا تھا جسے ’پیغامِ پاکستان‘ کا نام دیا گیا تھا۔
پیغامِ پاکستان میں دہشت گردی کو اسلام کے منافی قرار دیا گیا تھا اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات مسلط کرنے والوں کو اسلامی تعلیمات کا باغی کہا گیا تھا۔
اس فتویٰ میں خودکش حملوں، شدت پسندی اور خونریزی کو ’فساد فی الارض‘ قرار دیتے ہوئے ریاست کے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کے شرعی حق کو تسلیم کیا گیا۔
فتوے میں کہا گیا کہ متحارب جہاد کا حکم صرف ریاست کا اختیار ہے اور اپنے طور پر یہ عمل کرنے والے باغی تصور کیے جائیں گے۔
پیغامِ پاکستان میں دہشت گردی کی ترغیب، خودکش حملوں کی تیاری، تربیت، اس کا حکم اور اس پر عمل کرنے والی اسلامی تعلیمات کے باغی ہیں۔