آئی بی اہلکار کے اپنے افسران پر دہشت گردوں سے روابط کا الزام

فائل

مدعی نے درخواست میں دعویٰ کیا کہ دوران سروس کچھ شواہد ان کی نظر سے گزرے جن میں دہشت گردی کی کڑیاں پاکستان کے اندر اور بعض سینیئر افسران کے ساتھ مل رہی تھیں

سول حساس ادارے، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ایک اہلکار نے اپنے ہی بعض سینیئر افسران پر دہشت گردوں سے رابطے اور انھیں تحفظ دینے کے الزامات عائد کرتے ہوئے عدالت عالیہ سے رجوع کیا ہے۔

آئی بی کے حاضر سروس اسسٹنٹ سب انسپکٹر ملک مختار احمد شہزاد نے وکیل بیرسٹر مسرور شاہ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ اس معاملے کی تحقیقات فوج کے انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سپرد کی جائیں۔

مدعی نے درخواست میں دعویٰ کیا کہ دوران سروس کچھ شواہد ان کی نظر سے گزرے جن میں دہشت گردی کی کڑیاں پاکستان کے اندر اور بعض سینیئر افسران کے ساتھ مل رہی تھیں۔ ان کے بقول، اس بابت انھوں نے اپنے سینیئر افسران کے علاوہ وزیراعظم کے دفتر میں بھی معاملے کو اٹھایا، لیکن اس پر کارروائی نہ ہونے پر انھوں نے عدالت سے رجوع کیا۔

تاہم، درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر مسرور شاہ نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک مختار نے اپنے دعوے کو تقویت دینے کے لیے نہ تو ثبوت درخواست کے ساتھ لف کیے اور نہ ہی انھیں دکھائے۔

بیرسٹر مسرور شاہ کے مطابق، "آج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں کیس لگا تھا انھوں نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ ثبوت اگر مدعی کسی کو نہیں دکھانا چاہتے تو وہ سربہمر لفافے میں جمع کروا دیں جس کا بغور جائزہ لیا جائے گا اور جو مناسب کارروائی ہو گی وہ کریں گے۔"

اس بارے میں انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور حکومتی عہدیداروں سے رابطے کی متعدد کوششیں بھی اس خبر کی اشاعت تک بارآور ثابت نہیں ہو سکی تھیں۔

لیکن، یہ امر قابل ذکر ہے کہ انٹیلی جنس بیورو وفاقی حکومت کے ماتحت ایک ادارہ ہے اور حالیہ مہینوں میں حزب مخالف خصوصاً تحریک انصاف کی طرف سے اس ادارے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ یہ مبینہ طور پر اپنے اصل کام کی بجائے حکومت کی منشا کے مطابق کام کر رہا ہے۔

اس جماعت کے سربراہ عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ لیکن، اس پر بھی ادارے کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

سلامتی کے امور کے سینیئر تجزیہ کار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ فی الوقت آئی بی کے اس اہلکار کے الزامات کی صداقت پر بات کرنا کسی طور مناسب نہیں لیکن ان کے خیال میں الزامات کی حقیقت جاننے کے لیے کارروائی ضروری ہے۔

اکرام سہگل نے کہا، "یہ آئی بی کی بات کر رہے ہیں اور آئی بی سیاسی حکومت کے کنٹرول میں ہوتی ہے اور سیاسی حکومت خود بول رہی ہے کہ ایجنسیوں کا کام ہے مطلب (یہ لیا جاتا ہے کہ) آئی ایس آئی اور ایم آئی کا اور (اب) آئی بی کا اپنا آدمی بول رہا ہے تو اس میں حقیقاً دیکھنا ہو گا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔"

لیکن، ان کے بقول، ایسا ہو سکتا ہے کہ چھوٹے پیمانے پر عسکریت پسند عناصر سے ہمدری رکھنے والے موجود ہوں، لیکن جتنے بڑے افسران اور جس شدت سے ان کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ایسا بظاہر ممکن نہیں۔