ایڈز کے خلاف کوششوں میں تیزی پر زور

خصوصی مندوب برائے ایڈز پرساد راؤ

اقوام متحدہ کے عہدیدار پرساد راؤ کا کہنا تھا کہ موثر اور مسئلے کی جانب مرکوز کوششوں سے پاکستان سے اس وائرس کا خاتمہ ممکن ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے نمائندہ خصوصی برائے ’ایڈز‘ پرساد راؤ نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں ’ایڈز‘ کے خلاف کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

پرساد راؤ نے جمعہ کو اپنا دورہ مکمل کیا اور اس دوران انھوں نے پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں اپنے ادارے کے تعاون اور کوششوں کے تسلسل کا عزم دہرایا۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈز سے متاثرہ افراد میں سے80 فیصد بڑے شہروں ہی میں مقیم ہیں جب کہ اُن کے بقول ٹیکوں سے نشہ کرنے والوں میں سے 27 فیصد ایڈز کا شکار ہیں جو کہ باعث تشویش ہے۔

پرساد راؤ نے کہا کہ 2000ء میں جب پاکستان میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام شروع کیا گیا تو اُس وقت اُن کے بقول خاصی اچھی حکمت عملی تیار کی گئی تھی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایڈز کے خلاف کوششوں میں تیزی پر زور


اس تمام صورتحال میں پرساد راؤ کا کہنا تھا کہ موثر اور مسئلے کی جانب مرکوز کوششوں سے پاکستان سے اس وائرس کا خاتمہ ممکن ہے۔

’’گورنمنٹ ایک ایچ آئی وی بل کا سوچ رہی ہے، وہ بل اگر پارلیمنٹ میں آئے اور اگر پاس ہو جائے تو بہت اچھا ہو گا۔ اس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو گا، جہاں متاثرہ لوگ سامنے آکر حکومت کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔‘‘

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی مندوب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ مریضوں کے لیے علاج معالجے کی سہولتوں میں بھی اضافہ ضروری ہے۔

’’ابھی (سہولتیں کافی نہیں ہیں، میرے خیال میں بہت ہی کم ہے۔ صرف نو فیصد متاثرہ افراد ہی (نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام) سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ماں سے بچوں کو جو ایچ آئی وی ہوتا ہے اس کی کوریج بھی بہت ہی کم ہے۔ میں حکومت پاکستان سے درخواست کروں گا کہ اس پر (فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے)۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ ایسے ممالک جہاں وسائل کی کمی ہو، وہاں فنڈز کے موثر استعمال سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

’’محدود وسائل جب ہوتے ہیں تو اُن کو ہمیں وہیں استعمال کرنا چاہیے جہاں سب سے زیادہ لوگ متاثر ہوں، جیسا کہ میں نے بتایا کہ 10 سے بارہ جو بڑے بڑے شہر ہیں، جہاں انفیکشن زیادہ ہے، اگر ہم لوگ پیسہ وہاں زیادہ خرچ کریں میرے خیال میں نتائج اچھے ہوں گے۔‘‘

پرساد راؤ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایڈز سے متاثر افراد کی تعداد جاننے کے لیے 2011ء میں ایک سروے کرایا گیا تھا جس کے مطابق 87000 افراد متاثر تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹںے اور بہتر حکمت عملی کی تیاری کے لیے نئی جائزہ رپورٹ کی بھی ضرورت ہے۔

ایڈز ایک جان لیوا مرض ہے جس کا وائرس غیر محفوظ انتقال خون، استعمال شدہ سرنج کے دوبارہ استعمال اور غیر فطری جنسی تعلقات کے باعث ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔

پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا محکمہ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے اور اکثر حکام بین الاقوامی اداروں کی معاونت سے چلنے والے منصوبوں بشمول ایڈز سے بچاؤ کے پروگرام میں فنڈز کی کمی کو اس ضمن میں اہداف حاصل نہ کرسکنے کی وجہ گردانتے ہیں۔