کراچی —
انسانوں میں مختلف بیماریاں مختلف طریقوں سے پھیلتی ہیں۔ کچھ بیماریاں کھانے پینے کی چیزوں سے، کچھ بیمار لوگوں کے کھانسنے اور چھینکنے سے جراثیم کے ہوا کے ذریعے سانسس کے راستے صحتمند افراد کے جسم میں داخل ہونے سے، کچھ بیماریاں خون کے ذریعے ایک سے دوسرے کو لگتی ہیں، تو کچھ بیماریاں جنسی عمل کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے کو لگتی ہیں۔
جِلد، بالوں، ناخنوں اور جنسی امراض کے ماہر، ڈاکٹر ندیم الدین صدیقی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی جنسی عمل سے پھیلنے والے امراض کے بارے میں لوگوں میں شعور پیدا کرنے اور شادی سے قبل ان امراض کے ٹیسٹ کروانے سے لوگ اپنی، اپنے شریکِ حیات اور آنے والی نسل کی حفاظت کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ امراض مرد سے عورت، عورت سے مرد اور ماں سے بچے کو بھی لگ سکتے ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے پر بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ ان امراض میں ’سیفیلس‘ ایک اہم بیماری ہے جو ایک انسان سے دوسرے کو جراثیم کے ذریعے لگتی ہے۔
اِس بیماری کے تین درجے ہیں: یہ بیماری جنسی عمل کے نو سے لے کر نوے دن تک ظاہر ہو سکتی ہے۔ ایک چھوٹے سے دانے کی شکل میں ظاہر ہونے والی اس بیماری کو بر وقت ڈاکٹر کو دکھانے سے مرض کی تشخیص اور علاج آسانی سے ہو جاتا ہے، ورنہ یہ بیماری دوسرے اور پھر تیسرے درجے تک پہنچ کر بخار، الٹیاں، جوڑوں اور پٹھوں میں درد سے پیچیدا ہوتا ہوا جِلد، گردے، جگر، دل اور دماغ تک کو متاثر کر سکتا ہے۔
یہاں تک کہ یہ بیماری ماں سے ہونے والے بچے کو پیدائش سے پہلے، پیدائش کے دوران اور پیدائش کے بعد بھی ہو سکتی ہے، جس سے بچہ کئی پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر صدیقی کے مطابق نوکری، گھومنے پھرنے یا امیگریشن کے لئے ملک سے باہر جانے کے خواہش مند ویزا حاصل کرنے کی شرائط پوری کرتے ہوئے، جب ٹیسٹ کرواتے ہیں اور ان میں یہ جراثیم ہوں تو وہ ویزا حاصل کرنے میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’گنورہیا‘ اور ’کلیمائڈیا‘ بھی جنسی عمل سے لگنے والی بیماریاں ہیں اور ایچ آئی وی ایڈز اور ہپیٹائٹس جنسی عمل کے ساتھ ساتھ دوسرے راستوں سے بھی پھیلتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان بیماریوں سے بچنے کے لئے ’ٹیسٹ‘ اور ’کونڈم‘ کے استعمال سے اپنی، اپنوں اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔
جِلد، بالوں، ناخنوں اور جنسی امراض کے ماہر، ڈاکٹر ندیم الدین صدیقی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی جنسی عمل سے پھیلنے والے امراض کے بارے میں لوگوں میں شعور پیدا کرنے اور شادی سے قبل ان امراض کے ٹیسٹ کروانے سے لوگ اپنی، اپنے شریکِ حیات اور آنے والی نسل کی حفاظت کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ امراض مرد سے عورت، عورت سے مرد اور ماں سے بچے کو بھی لگ سکتے ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے پر بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ ان امراض میں ’سیفیلس‘ ایک اہم بیماری ہے جو ایک انسان سے دوسرے کو جراثیم کے ذریعے لگتی ہے۔
اِس بیماری کے تین درجے ہیں: یہ بیماری جنسی عمل کے نو سے لے کر نوے دن تک ظاہر ہو سکتی ہے۔ ایک چھوٹے سے دانے کی شکل میں ظاہر ہونے والی اس بیماری کو بر وقت ڈاکٹر کو دکھانے سے مرض کی تشخیص اور علاج آسانی سے ہو جاتا ہے، ورنہ یہ بیماری دوسرے اور پھر تیسرے درجے تک پہنچ کر بخار، الٹیاں، جوڑوں اور پٹھوں میں درد سے پیچیدا ہوتا ہوا جِلد، گردے، جگر، دل اور دماغ تک کو متاثر کر سکتا ہے۔
یہاں تک کہ یہ بیماری ماں سے ہونے والے بچے کو پیدائش سے پہلے، پیدائش کے دوران اور پیدائش کے بعد بھی ہو سکتی ہے، جس سے بچہ کئی پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر صدیقی کے مطابق نوکری، گھومنے پھرنے یا امیگریشن کے لئے ملک سے باہر جانے کے خواہش مند ویزا حاصل کرنے کی شرائط پوری کرتے ہوئے، جب ٹیسٹ کرواتے ہیں اور ان میں یہ جراثیم ہوں تو وہ ویزا حاصل کرنے میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’گنورہیا‘ اور ’کلیمائڈیا‘ بھی جنسی عمل سے لگنے والی بیماریاں ہیں اور ایچ آئی وی ایڈز اور ہپیٹائٹس جنسی عمل کے ساتھ ساتھ دوسرے راستوں سے بھی پھیلتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان بیماریوں سے بچنے کے لئے ’ٹیسٹ‘ اور ’کونڈم‘ کے استعمال سے اپنی، اپنوں اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔