حالیہ برسوں میں ہزارہ برادری پر تواتر سے ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں جس میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی اس برادری کے سینکڑوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
کوئٹہ —
بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں یوم حضرت علی کے موقع پر ہزارہ ٹاؤن کے علاقے میں مقامی رضاکاروں کی مدد سے سینکڑوں پولیس اور ایف سی اہلکار شیعہ برادری کے لوگوں کی حفاظت پر مامور کیے گئے۔
اکیس رمضان کو حضرت علی کی شہادت پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ ماتمی جلوس اور عزاداری کی محافل منعقد کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ہزارہ برادری پر تواتر سے ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں جس میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی اس برادری کے سینکڑوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
ہزارہ برادری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں نئی صوبائی حکومت سے انہوں نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور یہ امر بھی ان کے لیے باعث اطمینان ہے کہ عبد المالک بلوچ پہلے وزیراعلیٰ ہیں جہنہوں نے علاقے کی ایک امام بارگاہ کے قر یب ہونے والے خود کش حملے کے بعد علاقے کا دورہ کر کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور حفاظتی اقدامات مزید بہتر اور سخت کر نے کی یقین دہانی کرائی ۔
ہزارہ ٹاﺅن میں داخل ہونے پر اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ علاقے کے داخلی راستوں پر پولیس اور ایف سی کے مزید جوانوں کو تعینات کرکے اضافی چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں ۔
ہزارہ ٹاﺅن کے ایک مصروف کاروباری مر کز میں حال ہی میں ایک طاقتور بم حملے کے متاثرین میں سلمان علی بھی شامل ہیں جن کا ایک بیٹا اس حملے میں ہلاک جبکہ گھر کے دس افراد کی کفالت کے لیے طویل محنت سے بنائی گئی جوتوں کی دُکان بھی تباہ ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ بم دھماکے نے ان کے خاندان کو مسلسل خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
’’اسلام آباد میں بھی شیعہ ہیں ادھر پنجاب میں بھی ہیں لیکن وہاں ایسے حالات نہیں ہیں، کیوں؟ یہاں اس لیے کہ ہم تھوڑی تعداد میں ہیں۔‘‘
علاقے کے ایک انتہائی متحر ک رضاکار علی عمران کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ہونے والے ہر حملے کے بعد سب سے پہلے مقامی رضاکاروں کی ٹیم وہاں پہنچ کر امدادی کارروائیاں کرتی ہے۔
ہزارہ برادری ایک صدی قبل افغانستان سے بلوچستان میں آکر آباد ہو ئی تھی اور ماضی قر یب میں یہ لوگ کو ئٹہ کے ہزارہ ٹاﺅن میں امن و چین کی زندگی گزار رہے تھے مگر ان دنوں ہزارہ ٹاﺅن کی گلیوں میں پائی جانے والی کشیدگی بالکل عیاں ہیں کیونکہ ہزارہ برادری کے رضاکار علاقے میں آمد ورفت کے مقامات پر مشتبہ گاڑیوں رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی تلاشی لینے میں مصروف ہیں
واضح رہے کہ شیعہ ہزارہ برادری پر ہونے والے تمام حملوں کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی کی جانب سے قبول کیے جانے کے علاوہ مزید ایسی کاروائیوں کی دھمکی بھی دی جاچکی ہے۔
اکیس رمضان کو حضرت علی کی شہادت پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ ماتمی جلوس اور عزاداری کی محافل منعقد کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ہزارہ برادری پر تواتر سے ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں جس میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی اس برادری کے سینکڑوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
ہزارہ برادری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں نئی صوبائی حکومت سے انہوں نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور یہ امر بھی ان کے لیے باعث اطمینان ہے کہ عبد المالک بلوچ پہلے وزیراعلیٰ ہیں جہنہوں نے علاقے کی ایک امام بارگاہ کے قر یب ہونے والے خود کش حملے کے بعد علاقے کا دورہ کر کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور حفاظتی اقدامات مزید بہتر اور سخت کر نے کی یقین دہانی کرائی ۔
ہزارہ ٹاﺅن میں داخل ہونے پر اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ علاقے کے داخلی راستوں پر پولیس اور ایف سی کے مزید جوانوں کو تعینات کرکے اضافی چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں ۔
ہزارہ ٹاﺅن کے ایک مصروف کاروباری مر کز میں حال ہی میں ایک طاقتور بم حملے کے متاثرین میں سلمان علی بھی شامل ہیں جن کا ایک بیٹا اس حملے میں ہلاک جبکہ گھر کے دس افراد کی کفالت کے لیے طویل محنت سے بنائی گئی جوتوں کی دُکان بھی تباہ ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ بم دھماکے نے ان کے خاندان کو مسلسل خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
’’اسلام آباد میں بھی شیعہ ہیں ادھر پنجاب میں بھی ہیں لیکن وہاں ایسے حالات نہیں ہیں، کیوں؟ یہاں اس لیے کہ ہم تھوڑی تعداد میں ہیں۔‘‘
علاقے کے ایک انتہائی متحر ک رضاکار علی عمران کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ہونے والے ہر حملے کے بعد سب سے پہلے مقامی رضاکاروں کی ٹیم وہاں پہنچ کر امدادی کارروائیاں کرتی ہے۔
ہزارہ برادری ایک صدی قبل افغانستان سے بلوچستان میں آکر آباد ہو ئی تھی اور ماضی قر یب میں یہ لوگ کو ئٹہ کے ہزارہ ٹاﺅن میں امن و چین کی زندگی گزار رہے تھے مگر ان دنوں ہزارہ ٹاﺅن کی گلیوں میں پائی جانے والی کشیدگی بالکل عیاں ہیں کیونکہ ہزارہ برادری کے رضاکار علاقے میں آمد ورفت کے مقامات پر مشتبہ گاڑیوں رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی تلاشی لینے میں مصروف ہیں
واضح رہے کہ شیعہ ہزارہ برادری پر ہونے والے تمام حملوں کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی کی جانب سے قبول کیے جانے کے علاوہ مزید ایسی کاروائیوں کی دھمکی بھی دی جاچکی ہے۔