'ہیٹ ویو کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا'

کراچی میں شہری گرمی سے بچنے کے لیے ایک چوک پر بنے فوارے کے نیچے کھڑے ہیں۔ (فائل فوٹو)

ماہرینِ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ شدید اور تواتر سے رونما ہونے والے گرمی کی لہر کے زیادہ تر واقعات شہروں اور گنجان آبادی والے علاقوں میں رونما ہوں گے۔

پاکستان کی وفاقی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے ترجمان اور ماہرِ ماحولیات محمد سلیم نے کہا ہے کہ پاکستان میں درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے کے باعث گرمی کی لہر یا 'ہیٹ ویو' کے واقعات آنے والے برسوں میں مزید شدت اور اضافے کے ساتھ رونما ہوتے رہیں گے جس سے صحت، معاشی اور سماجی شعبوں پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں محمد سلیم نے بتایا کہ گزشتہ 30 برسوں کے دوران پاکستان کے درجۂ حرارت میں نصف ڈگری کا اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں گرمی کی لہر والے دنوں میں پانچ گُنا اضافہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے ورلڈ میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی تحقیق کے مطابق حالیہ صدی کے آخر تک پاکستان کے درجۂ حرارت میں تین سے پانچ ڈگری تک کا اضافہ دیکھا جا سکتا ہے جس کے باعث پاکستان کے معاشی، سماجی اور صحت کے شعبے بری طرح متاثر ہوں گے۔

ان کے بقول شدید اور تواتر سے رونما ہونے والے گرمی کی لہر کے زیادہ تر واقعات شہروں اور گنجان آبادی والے علاقوں میں رونما ہوں گے جن کے باعث معمر، کمزور غربت اور بھوک سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی ممکنہ طور پر اموات میں اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی حدت کے باعث رونما ہونے والے ان واقعات کے انسانوں اور ان کی صحت پر ممکنہ طور پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے بچنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں ہیٹ ویو اور ارلی وارننگ سسٹم نصب کرنے کے ساتھ ساتھ شجرکاری کو ہر سطح پر فروغ دینا ہوگا۔

محمد سلیم کے بقول، "تاریخی طور پر گرمی کی لہر کے واقعات مئی اور جون کے مہینوں میں دیکھے جاتے تھے مگر اب ملک میں ہیٹ ویو کے دن مارچ اور اپریل میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ گرمی کی اس لہر کے سبب زرعی پیداوار، سیلابوں، پانی کی کمی، صحرائیت، سمندری علاقوں میں کٹاؤ، گلیشیر کے پگھلنے کے واقعات میں شدت اور اضافہ دیکھا جائے گا۔

بین الاقوامی جریدے 'نیچر کلائمیٹ چینج' میں چھپنے والی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے محمد سلیم نے کہا کہ اس وقت پاکستان سمیت عالمی سطح پر ہر تین میں سے ایک فرد گرمی کی لہر کے واقعات سے متاثر ہو رہا ہے۔

تاہم تحقیق کے مطابق اس صدی کے آخر تک ہر چار میں سے تین افراد عالمی حدت کے باعث رونما ہونے والی گرمی کی لہر کے واقعات سے بری طرح متاثر ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہر کے متعلق بروقت اور بہتر پیش گوئی اور اس کے متعلق عام لوگوں تک معلومات کی بروقت رسائی سے گرمی کی لہر کے منفی اثرات کو بڑی حد تک قابو پاکر لوگوں کی زندگیوں اور صحت کو منفی اثرات سے بچایا جاسکتا ہے۔