پاکستان کی حکومت اور تحریک لبیک پاکستان یا ٹی ایل پی کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اور جسے خفیہ رکھا جارہا ہے اور جس کے تحت اس پر عائد پابندی کو ختم کر کے اسے کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ اس پر پاکستان میں سیاسی امور کے ماہرین اور تجزیہ کار مختلف رائے رکھتے ہیں۔
بیشتر تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ اب دوسری کالعدم تنظیمیں بھی اپنے اوپر سے پابندیاں ختم کرانے کے لئے وہی کچھ کرنے کی کوشش کریں گی جو ٹی ایل پی نے کیا اور یوں ملک میں دوسری کالعدم جماعتوں کی جانب سے مظاہروں وغیرہ کا کوئی نیا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے اور یہ کہ اس سے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو بھی ہوا ملے گی۔
احمد بلال محبوب ایک ممتاز سیاسی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی ( PILDAT ) کے سربراہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک پینڈورا باکس کھل گیا ہے اور ملک میں ٹی ایل پل طرز کی کئی اور تنظیمیں موجود ہیں جن میں سے بعض پر پابندیاں بھی عائد ہیں اور اس معاہدے سے انہیں بھی ترغیب ملے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اسی انداز میں اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں۔
SEE ALSO: ٹی ایل پی کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے خارج، وزیرِ آباد میں دھرنا ختمانہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد یہ بھی ایک امکان ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کم از کم پنجاب اور سندھ میں جہاں ٹی ایل پی کسی حد تک مضبوط ہے، اس کے ساتھ سیاسی افہام و تفہیم کر لے کیونکہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ مقابلے کے لئے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مقابلے کے لئے اسے اتحادی درکار ہے۔ اور اس سلسلے میں اشارے آنے بھی شروع ہو گئے ہیں۔
احمد بلال محبوب نے کہا تاہم یہ معاہدہ بین الاقوامی سطح پر بھی بعض ملکوں کے لئے تشویش کا اور حکومت کے لئے خجالت کا سبب ہو سکتا ہے کہ ایک ایسی تنظیم کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے جو پر تشدد طریقے استعمال کر رہی تھی پولیس کے خلاف بھی اور لوگوں کے خلاف بھی اور ایک بیرونی ملک کے سفیر کو ملک سے نکلوانا چاہتی تھی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایک ایسے وقت میں جبکہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور اب تحریک لبیک کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا ہے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو ہوا ملے گی؟ ان کا کہنا تھا کہ یقیناً ایسا ہی ہو گا۔ خاص طور سے افغانستان کی صورت حال سے کیونکہ طالبان نظریاتی طور پر انتہائی فعال گروپ ہیں جو جغرافیائی سرحدوں پر بھی بہت زیادہ یقین نہیں رکھتے ہیں اور اپنا نظریاتی پیغام دوسری جگہوں پر پھیلانا چاہتے ہیں اور ان کے اتحادی پہلے سے پاکستان میں موجود ہیں۔ اسلئے ان گروپوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور تحریک لبیک کا یہ معاہدہ اس حوصلہ افزائی کے لئے مہمیز ثابت ہو گا۔
سلمان عابد ایک ممتاز سیاسی تجزیہ کار اور صحافی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا موجودہ حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ مفاہمت کا راستہ نکالا جائے۔ اور اس بار جو مفاہمت کا راستہ نکالا گیا ہے۔ تو اطلاعات یہ ہیں کہ تحریک لیبک پاکستان سے یہ تحریری ضمانت لی گئی ہے کہ آئندہ وہ اس انداز میں ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرے گی۔ جیسے وہ کرتی آ رہی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ یہ مفاہمت کا راستہ نکالنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اس قسم کی تنظیموں کے بارے میں رائے عامہ بہت منقسم ہے۔ ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ انہیں طاقت کے ذریعے کچل دیا جائے جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو چاہتا ہے کہ انکے ساتھ مفاہمت کا راستہ نکالا جائے۔ اور ملک کے موجودہ حالات کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ہر چند کہ یہ کوئی آئیڈیل صورت حال نہیں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہ تھا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جو مفاہمت ہوئی ہے اور اس کے جو لوگ ضامن بنے ہیں وہ اس معاہدے پر کس حد تک عمل کراسکتے ہیں۔ تاہم سلمان عابد نے بھی اس خطرے کا اظہار کیا کہ کہ اس مفاہمت کے سبب سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے گروپوں نے حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا ہے کہ ان پر عائد پابندیاں بھی ختم کی جائیں اور یوں ملک میں ایک نئی بحث شروع ہوگئ ہے کہ ان تنظیموں کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے۔
SEE ALSO: ٹی ایل پی سے معاہدے کے بعد پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے کیوں کیے گئے؟ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد نے کہا کہ ملک میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ان تنظیموں کے ساتھ سیاسی رعایت کی اور انکو قومی دھارے میں لانے میں کوشش کی تو ان کا ماڈل بھی وہی ہے جو طالبان کا ماڈل ہے۔ جسے وہ لانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن سلمان عابد نے کہا اس حوالے سے وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کی صورت حال میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی تنظیموں کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ اور اگر اس تنظیم نے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا تو ان کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس پورے معاملے میں ایک بڑا رول ادا کیا ہے تاکہ ٹکراو کی صورت حال پیدا نہ ہو سکے۔
ملک کے سیاسی منظر نامے پر اس کے اثرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تحریک لبیک معاہدے پر عمل کرتی ہے اور آئینی حدود کے اندر رہ کر آئندہ انتخاب میں حصہ لیتی ہے تو بڑی حد تک پنجاب میں جہاں اسے خاصی قوت حاصل ہے پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کے درمیان مقابلے میں اور سندھ میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔
حکومت یا پی ٹی ٓآئی کا کوئی نمائندہ اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ البتہ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صرف اتنا کہا کہ جن لوگوں کے خلاف مقدمات ہیں انہیں کسی صورت رہا نہیں کیا جائے گا۔