پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر چھ ارب ڈالرز سے بھی کم، اب آپشنز کیا ہیں؟

پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر جمعرات کو آٹھ سال کی کم ترین سطح 5.57 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں جس کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پر زور دیا ہے کہ وہ قرض کی نئی قسط کے اجرا کی شرائط نرم کر دے۔

جمعرات کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا تھا کہ ایک ہفتے کے دوران زرِمبادلہ کے ذخائر 24 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کم ہو کر پانچ ارب 57 کروڑ ڈالرز رہ گئے ہیں۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط گزشتہ سال نومبر میں ملنا تھی لیکن حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کا جائزہ اجلاس نہ ہونے کی بنا پر اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

اگرچہ وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے دسمبر کے اوائل میں کہا تھا کہ جائزے کا عمل اگلے مراحل میں داخل ہو چکا ہے تاہم ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی اسٹاف لیول ایگریمنٹ عمل میں نہیں آسکا ہے جس کی ایک وجہ کرسمس کی چھٹیاں بھی بتائی جاتی ہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے اب تک مذاکرات بے نتیجہ رہنے کی دیگر وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ فنڈ بجٹ سے قبل ہونے والے معاہدے کے تحت بجلی، گیس اور دیگر شعبوں میں گردشی قرضوں سے بچنے کے لیے نئے ٹیکس لگانا چاہتا ہے۔

آئی ایم ایف یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستانی روپے کو اس کی حقیقی قدر حاصل کرنے دی جائے جو ڈالرز کی کمی کے باوجود انتظامی اقدامات کے باعث کئی ہفتوں سے مستحکم نظر آ رہی ہے۔

حکومتِ پاکستان کو خدشہ ہے کہ اگر ان شرائط پر عمل کیا گیا تو ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا کیوں کہ اسی برس عام انتخابات کا انعقاد بھی ہونا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا پاکستان کے معاشی مسائل کا کوئی حل ہے؟

برآمدات، ترسیلاتِ زر اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی

دوسری جانب پاکستان کو امریکی ڈالرز کی شدید کمی کا بھی سامنا ہے کیوں کہ اسے رواں مالی سال میں بین الاقوامی ادائیگیوں کی مد میں تقریباً 23 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

رواں سال جاری کھاتوں کا خسارہ بھی اس کے علاوہ 9 سے 10 ارب ڈالرز تک رہنے کا امکان ہے۔

دوسری جانب امریکی حکومت کی طرف سے پالیسی ریٹ میں تاریخی اضافے، یوکرین جنگ اور عالمی کساد بازاری سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر ملکی خزانے میں غیر ملکی زرِمبادلہ کی آمد انتہائی کم دکھائی دیتی ہے۔

ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ برآمدات میں ایک ماہ میں 3.64 فی صد جب کہ گزشتہ پانچ ماہ کے مقابلے میں 5.79 فی صد کمی آئی ہے۔

اسی طرح بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں بھی کمی دیکھی جارہی ہے اور نومبر 2022 کے دوران ترسیلاتِ زر میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔

مرکزی بینک کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا نومبر کے دوران مجموعی طور پر 12 ارب ڈالرز ملک میں آئے، اس طرح پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں ترسیلاتِ زر میں 9.6 فی صد کم ہوگئی ہے۔

یہی نہیں بلکہ مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً نصف رہ گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق جولائی تا نومبر کے دوران دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے 43 کروڑ ڈالر کا سرمایہ پاکستان منتقل کیا جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 88 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

مہنگائی میں مسلسل اضافہ؛ 'دوپہر کا کھانا کھانا چھوڑ دیا ہے'


وزیر اعظم کا آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کو فون؛ قرض کی شرائط نرم کرنے پر زور

ایسی صورتِ حال میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا کو چند روز پہلے فون کرکے ریونیو کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے متعلق شرائط میں نرمی کرنے پر زور دیا تھا۔

جمعے کو وزیر اعظم شہباز شریف نے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی عہدے دار نے انہیں یقین دلایا ہے کہ فنڈ کی ٹیم معاشی جائزے کے لیے جلد پاکستان پہنچے گی۔

'اگر آئی ایم ایف نے موٌقف نرم نہ کیا تو حکومت ٹیکس بڑھائے گی'

مالیاتی امور کے ماہر شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے محصولات کی وصولی میں اپنا مؤقف نرم نہ کیا تو حکومت بینکنگ سیکٹر پر ونڈ فال ٹیکس لگانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے جس کے تحت بینکوں کو منافع پر مزید 50 سے 70 فی صد تک ٹیکس ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے مالی سال کا بجٹ منظور کرتے وقت ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے بینکوں سمیت 13 صنعتی شعبوں پر سُپر ٹیکس نافذ کیا تھا۔

شہریار بٹ کے مطابق حکومت کے پاس دوسرا آپشن پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی جسے پی ڈی ایل کہا جاتا ہے، اس میں 100 روپے تک کے اضافے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت حکومت کو رواں مالی سال کے دوران 855 ارب روپے جمع کرنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو بتدریج 50 روپے فی لیٹر بڑھانا تھا۔ تاہم گزشتہ چند ماہ میں اس میں اس قدر اضافہ نہ ہونے سے ہدف پورا ہونے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اس کے متبادل انتظامات میں پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کا نیا بیل آؤٹ پیکج ملنے کی امید ظاہر کی ہے جو سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے خزانے میں رکھے گئے تین ارب ڈالر ڈپازٹس کے علاوہ ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ وزیر خزانہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔