پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال جولائی میں پاکستان کی برآمدات میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 5.8 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی برآمدات میں رواں سال مارچ سے کرونا وائرس کے سبب کمی ہونی شروع ہوئی تھی جس کے بعد جولائی میں برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی برآمدات میں اضافے کے بارے میں اعداد و شمار وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے تجارت رزاق داؤد کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے۔
مشیر برائے تجارت رزاق داؤد کا ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ جولائی میں پاکستان کی برآمدات کا حجم لگ بھگ دو ارب ڈالرز رہا۔ جب کہ گزشتہ سال اسی مہینے میں پاکستان نے ایک ارب 89 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی تھیں۔
مشیرِ تجارت کا مزید کہنا تھا کہ جولائی میں درآمدات میں بھی گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 4.2 فی صد کمی ہوئی ہے۔
ان کے بقول گزشتہ ماہ میں تین ارب 54 کروڑ ڈالرز کی اشیا درآمد کی گئیں۔ جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں درآمدی بل لگ بھگ تین ارب 70 کروڑ ڈالر تھا۔
مشیرِ تجارت رزاق داؤد کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے پاکستان کے تجارتی خسارے میں 14.7 فی صد کمی ہے۔
اگرچہ پاکستان کی برآمدات ابھی تک صرف روایتی منڈیوں تک محدود ہیں لیکن پاکستان کے مشیرِ تجارت کا کہنا ہے کہ حکومت برآمدت کے لیے جغرافیائی تنوع کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ برآمدات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کی جائیں۔
خیال رہے کہ مارچ 2019 کے مقابلے میں رواں سال مارچ میں پاکستان کی برآمدات میں آٹھ فی صد کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ جو اپریل میں بڑھ کر 54 فی صد ہو گئی۔ جب کہ رواں سال مئی میں یہ کمی 36 فی صد تھی۔
گزشتہ سال جون کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات میں رواں سال جون میں چھ فی صد کمی ہوئی۔
دوسری طرف پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران افغانستان کے لیے پاکستان کی برآمدات میں تقریباً 25 فی صد کمی ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 20-2019 کے دوران پاکستان نے افغانستان لگ بھگ 88 کروڑ 89 لاکھ ڈالرز کی اشیا برآمد کیں۔ جب کہ 19-2018 کے مالی سال کے دوران افغانستان کے لیے پاکستان کی برآمدات کا حجم ایک ارب 19 کروڑ ڈالرز تھا۔
'پاکستان افغانستان چیمبر آف کامرس' کے صدر زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت ایک مختلف معاملہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تجارت میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں رواں سال جولائی کے مہینے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول کرونا وائرس کی وجہ سے رواں سال اپریل، مئی اور جون میں پاکستان کی برآمدات میں کمی ہوئی کیوں کہ پاکستان کی کاروباری برداری سے کہا گیا کہ وہ اپنی مصنوعات برآمد نہ کریں۔ اس لیے ان کی برآمدی اشیا کی کھیپ روک دی گئی۔
زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ جولائی میں برآمدات میں ہونے والا اضافہ ان ہی شپ منٹس کا ہے جو رکی ہوئی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے مہینے میں یہ واضح ہو جائے گا کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ برقرار رہتا ہے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی منڈی میں طلب کی کمی ہے۔ لیکن آئندہ چند ماہ کے بعد اگر عالمی سطح پر صورتِ حال بہتر ہوتی ہے تو رسد اور طلب میں اضافے پر پاکستان کی برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔
ان کے بقول افغانستان اور پاکستان کی تجارت کے حجم میں کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں سیاسی نوعیت کی وجوہات بھی شامل ہیں۔
زبیر موتی والا کے مطابق پاک افغان سرحد کا بند ہونا، راہداری تجارت سے جڑے مسائل اور باہمی اعتماد کی کمی سے افغانستان اپنی درآمدات کے لیے پاکستان کے راستے کے علاوہ کئی دیگر راستے استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور افغانستان کی باہمی تجارت میں حائل مسائل دور ہونے پر اس کا حجم پانچ ارب ڈالرز تک ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد پاکستان ایک بڑی برآمدی منڈی بن سکتا ہے۔
پاکستان نے رواں سال مارچ میں کرونا وائرس کے سبب ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدوں کو تجارت کے لیے بند کر دیا تھا۔ لیکن اب سرحد پار تجارت دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔
پاکستان کے مشیرِ تجارت نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی کاروباری برداری خاص طور پر سرحد کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ جو کرونا وائرس کی وجہ سے بند کر دی گئی تھی۔