پاکستان میں دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے تین مجرموں کو بدھ کی صبح تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کی طرف جاری بیان کے مطابق یہ مجرمان مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں سمیت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے اور انھیں فوجی عدالتوں کی طرف سے سزا سنائی گئی تھی۔
ان مجرمان میں سید زمان خان، شوالح اور محمد ذیشان شامل ہیں جنہیں ساہیوال کی جیل میں پھانسی دی گئی۔
بیان کے مطابق فوجی عدالتوں کی طرف سے 161 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی تھی جن میں سے 21 پر عملدرآمد کیا جا چکا ہے۔
دہشت گردی میں ملوث غیر فوجی ملزمان کے مقدمات کی سماعت کے لیے پاکستان میں آئین میں ترمیم کر کے جنوری 2015ء میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جو اپنی دو سالہ مدت پوری کر کے رواں سال جنوری میں غیر فعال ہو گئی تھیں۔
ان کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کے لیے قانون سازی پارلیمان میں ان دنوں زیر بحث ہے۔
16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد پاکستان نے ملک میں تقریباً چھ سال سے زائد عرصے سے پھانسیوں پر عائد پابندی ختم کر دی تھی جس کے بعد سے اب تک چار سو سے زائد مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے پھانسیوں پر عائد پابندی اٹھانے اور پھر فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات اور تنقید کا اظہار کیا جاتا رہا۔
لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو ان کی صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے جب کہ ان عدالتوں سے سنائی گئی سزاوں کے خلاف ملزمان اعلیٰ عدلیہ میں اپیل بھی دائر کر سکتے ہیں۔
سزائے موت پر عملدرآمد پر ہونے والی تنقید کو حکومت یہ کہہ کر مسترد کرتی ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں قانون کے مطابق دی گئی سزا پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔