ڈیپ فیکس، انٹرنیٹ تک رسائی میں کمی نے پاکستان میں انتخابی کوریج کو مشکل بنایا، صحافتی تنظیمیں

پاکستان الیکشن کمیشن کا ہیڈکوارٹرز، فائل فوٹو

پاکستان کے اس ماہ ہونے والے عام انتخابات کے دوران صحافتی اور سول تنظیموں کے مطابق، ملک کے 128 ملین ووٹرز کو غلط معلومات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں مصنوعی ذہانت (اے آئی ) اور ڈیپ فیک ویڈیوز بھی شامل ہیں۔

ان میں ایک ایسی وڈیو بھی شامل ہے، جس میں سابق وزیراعظم عمران خان انتخابات میں جیت کا دعوی کر رہے ہیں۔ یہ وڈیو اور اس طرح کی دیگر وائرل ہونے والی وڈیوز غلط معلومات پھیلانے کے لئے جعلی ویڈیوز کے استعمال کی مثالیں ہیں۔

کئی مثالوں میں، ڈیپ فیک ویڈیوز آن لائن شیئر کی گئیں، جن میں تین ایسی ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ووٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے نظر آئے۔

ان میں سے ایک جعلی ویڈیو میں، عمران خان نے کہا کہ ان کی پارٹی الیکشن کا بائیکاٹ کرے گی۔ اور اسی طرح پنجاب کے سابق وزیر قانون بشارت راجہ اور سیالکوٹ سے الیکشن لڑنے والی پی ٹی آئی کی امیدوار ریحانہ ڈار کی جعلی وڈیوز بھی گردش کرتی رہیں۔

SEE ALSO: عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا اعلان، معاملہ ہے کیا؟

تقریباً سبھی امیدواروں کو جھوٹے دعوؤں کی تردید اور مذمت کرنے والے بیانات دے کر جواب دینا پڑا۔

انتخابی عمل کی سالمیت کے لیے خطرہ

پاکستان پالیسی ریسرچ گروپ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شریک بانی صدف خان نے کہا کہ انتخابات میں مصنوعی ذہانت اور ڈیپ فیکس خاص طور پر خطرناک ہیں۔

صدف خان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر عمران خان جیسے لیڈر کے جب ڈیپ فیکس وڈیوز جاری کیے جاتے ہیں، تو ان سے خاص طور پر ’’عوام کے دھوکہ کھانے کے بہت زیادہ امکانات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ اس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جس میں امکان ہوتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بنیادی طور پر ایسی معلومات کی بنیاد پر ووٹنگ کے فیصلے کرتی ہے جو درست نہیں ہوتیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا پی ٹی آئی نے الیکشن ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے جیتا؟

صدف خان کہتی ہیں کہ جب ایسا ہوتا ہے، تو ایسے میں ’’انتخابی عمل کی سالمیت اور جمہوریت کے معیار پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔‘‘

صحافیوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں انتخابات کے دوران، انٹرنیٹ تک رسائی کو کم کرنے کے حکومتی فیصلے نے میڈیا کے لیے غلط بیانیوں کو ختم کرنا مشکل بنا دیا تھا۔

پاکستان کی وزارت داخلہ نے الیکشن کے دن انٹرنیٹ اور سیلولر فون کی بندش کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات نے یہ اقدام ضروری بنا دیا تھا۔

لیکن صحافیوں اور دیگر سول سوسائٹی تنظیموں کے مطابق سیلولر بندش کی وجہ سے پولنگ اسٹیشن کے مقامات سمیت عوام کو اہم معلومات تک رسائی میں رکاوٹ کا سامنا رہا۔

صحافیوں کا اس دوران یہ کہنا تھا کہ وہ کسی بھی مبینہ بے ضابطگی کی فوری اطلاع دینے سے قاصر رہے۔

SEE ALSO:

الیکشن 2024: نئی حکومت کو کن معاشی چیلنجز کا سامنا ہو گا؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ کی جانب بھیجے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

تاہم کمیشن نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو ہدایت کی کہ وہ الیکشن کے دوران قومی میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق کی پابندی کو یقینی بنائے۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک، یا فافن کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اور ڈیپ فیکس ووٹرز کو متاثر کر سکتے ہیں۔

فافن پاکستان میں مقیم سول سوسائٹی گروپ انتخابی عمل کے مشاہدے اور نگرانی کے ذریعے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔

فافن کے ترجمان صلاح الدین صفدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سوشل میڈیا کا اثر خود ایک ابھرتا ہوا رجحان ہے جسے دنیا سمجھنے اور اس کا جواب دینے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ بقول ان کے ’’اے آئی اور ڈیپ فیک اس رجحان کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔‘‘

SEE ALSO: الیکشن کے روز انٹرنیٹ کی بندش پر وفاقی حکومت سے جواب طلب

صلاح الدین صفدر کا کہنا ہے کہ "انتخابی انتظامی اداروں کے لیے ان مسائل سے نمٹنا اور انتخابی مبصر گروپوں کے لیے منظم طریقے سے ان کا مشاہدہ کرنا ایک چیلنج ہے۔"

اسلام آباد میں مقیم فری لانس جرنلسٹ اسد طور نے 8 فروری کے انتخابات کی کوریج کی ہے۔ ان کے خیال میں اے آئی سے تیار کردہ وڈیوز نے پی ٹی آئی کی جیت میں کردار ادا کیا اور عمران خان کے امیدواروں کے حق میں ووٹر ٹرن آؤٹ کو متاثر کیا۔

مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کے مثبت امکانات

نیو میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کے کالج آف آرٹس اینڈ لیٹرز کے ڈین اینریکو پونٹیلی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بعض صورتوں میں اے آئی کا مثبت اثر ہو سکتا ہے۔

’’اے آئی رکاوٹوں کو توڑ کر اور اس طرح کے پیغامات کو عوام تک پہنچا کر جو بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، انہیں آواز فراہم کر سکتا ہے۔ اے آئی میں مصنوعی مواد کا پتہ لگانے، مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد کا پتہ لگانے اور حقائق کی جانچ پڑتال کی خبروں میں تعاون کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔‘‘

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی صدف خان نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ پاکستان کا قانونی فریم ورک ان مسائل سے مناسب طریقے سے نمٹنے کے قابل ہے۔

صدف کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق مواد کی کے خلاف کوئی مؤثر قانون سازی نہیں ہے، لیکن اگر AI کا غلط استعمال کسی کو بدنام کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، تو آپ کے پاس متعدد قانونی ڈھانچے ہیں جنہیں ہتک عزت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔"

اینریکو پونٹیلی کے نزدیک، حل اے آئی سے آ سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے نے موثر حل تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ بقول ان کے ’’یہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ جعلی مواد کے خطرے کا جواب دینے کے لیے ایک راستہ فراہم کرے گا۔‘‘