انتخابی مہم کو سیکورٹی خدشات کا سامنا

پاکستانی انتخابات، سکیورٹی

عدالت میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، صرف قبائلی علاقوں میں 2008 ءسے 2013ء تک 235 خود کش حملے ہوئے، 2557 راکٹ حملے اور 2456 بم حملے ہوئے
پاکستان میں 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے مہم سیکورٹی خدشات کا شکار ہو گئی ہے اور پیپلزپارٹی کے بعد آج اے این پی نے بھی محتاط رہنے کا اعلان کر دیا۔

بدھ کو کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید نے بھی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کی جماعت انتخابی مہم کیلئے بڑے جلسے، جلوس نہیں کرے گی, کیونکہ سیکورٹی کی صورتحال اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جلسوں کے بجائے اے این پی گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلائے گی۔

امن وامان کی مخدوش صورتحال

پاکستان میں امن وامان کی سنگین صورتحال کا اندازہ خفیہ اداروں کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف قبائلی علاقوں فاٹا(وفاق کے زیر اثر) اور پاٹا (خیبرپختونخوا کے زیر اثر) میں 2008 ءسے 2013ء تک 235 خود کش حملے ہوئے، 2557 راکٹ حملے اور 2456 بم حملے ہوئے۔

اڈیالہ جیل سے لاپتہ قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت پر آئی ایس آئی کے وکیل کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مذکورہ واقعات میں 5152 شہری ہلاک اور 676 زخمی ہوئے۔ ایک ہزار چار سو اناسی فوجی ہلاک، پانچ ہزار چار سو پچہتر زخمی ہوئے ، چھ سو پچہتر ایف سی اہلکارہلاک اور ایک ہزار نو سو اٹھہتر زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ نائن الیون کے بعد سے اب تک انچاس ہزار شہری اور فوجی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔


انتخابی مہم مشکلات کا شکار

قبائلی علاقوں کے علاوہ پانچ سالوں کے دوران پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی امن و امان کی صورتحال انتہائی خطرناک رہی۔ گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے ملک میں کچھ سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کا آغاز کر دیاہے تو کچھ تیاری کر رہی ہیں تاہم مخدوش امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر سیاسی قائدین کیلئے جلسے، جلوسوں میں شرکت مشکل تصور کی جارہی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے گزشتہ دنوں اپنے ویڈیو پیغام میں عوام کو واضح طور پر خبردار کیا تھا کہ وہ انتخابی عمل کا بائیکاٹ کریں اور سیاسی جلسوں میں جانے سے گریز کریں۔ انہوں نے خاص طور پر پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے جلسوں میں شرکت سے منع کیا تھا۔

پیپلزپارٹی نے اعلان کیا ہے کہ چار اپریل کو پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش سے وہ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرے گی۔ تاہم، سیکورٹی خدشات کے پیش نظر پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جلسوں میں خود شرکت نہیں کرینگے بلکہ ٹیلی فونک خطاب کریں گے۔

اس حوالے سے قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ سیکورٹی خدشات کے باعث پیپلزپارٹی کی قیادت کیلئے نواز شریف یا عمران خان کی طرح انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اپنے قائدین اور کارکنان کی قربانی دی ہے، بلاول بھٹو زرداری کو جلسے جلسوں میں شریک ہونے سے شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

طالبان کی جانب سے ایم کیو ایم کو بھی دھمکی دی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ تاحال اس کی جانب سے بھی کوئی بڑا عوامی اجتماع سامنے نہیں آسکا۔ اگرچہ ایم کیو ایم کی جانب سے باضابطہ طور پر محتاط رہنے کا اعلان تو نہیں کیا گیا۔ تاہم، بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کی طرح ایم کیو ایم بھی محتاط رہے گی۔

سابق وزیر داخلہ رحمن ملک اپنی دور وزارت میں بار بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ بعض کالعدم تنظیمیں انتخابات میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں کر سکتی ہیں۔

تمام نظریں سیکورٹی فورسز پر مرکوز

پرامن انتخابات کیلئے تمام نظریں فوج پر مرکوز ہیں اور اس کیلئے بظاہر فوج بھی سرگرم نظر آتی ہے۔ منگل کو آرمی چیف نے نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو سے ملاقات کی ، اس کے بعد صدر سے بھی ملے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملاقاتوں میں انتخابات کے پرامن انعقاد سے متعلق پہلووٴں پر تفصیل سے غور کیا گیا۔ اس سے پہلے سیکریٹری الیکشن کمیشن بھی دو بار جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی کا دورہ کر چکے ہیں جہاں سیکورٹی امور پر انہوں نے عسکری قیادت سے ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چند روز میں سیکریٹری الیکشن کمیشن ایک اور ملاقات کریں گے۔

دریں اثنا، بدھ کوآرمی چیف کی زیر صدارت کور کمانڈر کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں آئندہ عام انتخابات کیلئے سیکورٹی کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کانفرنس میں عام انتخابات کے دوران حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی۔

حساس پولنگ اسٹیشنز پر 45 سے 50 ہزار فوج تعینات کی جائے گی۔ بلوچستان، قبائلی علاقوں اور کراچی میں 28 ہزار کے قریب پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرا دیئے جانے کا امکان ہے۔ کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ بھی فوج طلب کر سکے گی۔