وزارت خزانہ کی طرف سے سرکاری یونیورسٹیوں کو ضروری مالی وسائل فراہم کرنے کی یقین دہانی کے بعد ستر سے زائد پاکستان کے ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے حکومت کی طرف سے ملنے والی مالی رقوم میں کٹوتی کے خلاف اپنااحتجاج ختم کردیاہے۔
یہ اعلان یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور حکومت کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی کے جمعرات کو اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس کے بعد کیا گیا۔
وفاقی دارالحکومت کی قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین جاوید لغاری اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سرکاری وظیفوں پر اندرون ملک اور بیرونی ممالک میں زیرتعلیم پاکستانی طالب علموں کی فیسوں کی فوری ادائیگی، تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور عملے کی تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافے کے اعلان پر عمل درآمد کرنے اور یونیورسٹیوں کے ایسے ترقیاتی منصوبے جن پر نوے فیصد کام مکمل ہوچکا ہے ترجیحی بنیادوں پر پایا تکمیل تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے مالی وسائل میں کٹوتی کے خلاف بدھ کے روزسے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں اساتذہ اور طالب علموں نے بھی اُن سے اظہار یکجہتی کے لیے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا ۔
پاکستان کو درپیش اقتصادی مشکلات اور ملک میں سیلاب سے وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہ کاریوں کے پیش نظر حکومت نے سرکاری یونیورسٹیوں کے فنڈز میں کمی کرتے ہوئے ان اداروں کے سربراہان سے کہا تھا کہ وہ اپنے طور پر اضافی مالی وسائل اکٹھے کریں کیونکہ حکومت کے لیے موجودہ حالات میں ایسا کرنابہت مشکل ہوگا۔
لیکن سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز نے اس فیصلے کو فوری طور پر رد کر کے مستعفی ہونے اور تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تاہم جمعرات کو طرفین کے مابین اختلافات طے پانے کے بعد یہ کشیدگی ختم ہوگئی ہے۔