پاکستان کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین جاوید لغاری نے کہا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے رجحانات کا براہ راست تعلق تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، غربت اور نا خواندگی کے چیلنجز سے ہے
آئندہ کچھ برسوں میں دنیا کے ہر دس میں سے ایک ناخواندہ بچہ پاکستانی ہوگا ۔جس کا مطلب ہے کہ اگرصورت حال تبدیل نہ ہوئی تویہ امکان موجود ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے ناخواندہ ملک جائے گا۔ تعلیم اور روزگار کے مواقعوں کی کمی کے نتیجے میں پاکستانی نوجوان شدت پسند رجحانات کا آسان شکار بن سکتے ہیں ۔
پاکستان کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین جاوید لغاری نے کہا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے رجحانات کا براہ راست تعلق تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، غربت اور نا خواندگی کے چیلنجز سے ہے ۔پاکستان میں تعلیم کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار کا دوسے تین فیصد خرچ کیا جاتا ہے ۔ جبکہ ہائیر ایجوکیشن کے حصے میں اس رقم کا صرف بارہ فیصد آتا ہے ۔
جاوید لغاری نے، جو ان دنوں واشنگٹن میں امریکی حکام اور امدادی اداروں کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ، ووڈرو ولسن سینٹر فار سکالرز میں اردو وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان میں اعلی تعلیم کے میدان کا ایک کامیاب ماڈل ہے اور اس تعلیمی ماڈل کوپاکستان میں پرائمری اور ڈگری سطح کے تعلیمی شعبے کی بہتری کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نچلے درجے کی تعلیم کا شعبہ پاکستان میں صوبوں کے زیر انتظام ہے اور اس شعبے کی بہتری کے لئے ملنے والی غیر ملکی امداد کو زیادہ موثر طور پر استعمال کرنے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ماڈل کو نچلی سطح کے تعلیمی شعبے پر لاگو کیا جانا بہتری کا ایک راستہ ہو سکتا ہے ۔
جاوید لغاری کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے پاکستانی آئین میں اعلیٰ تعلیم کا نہیں، صرف تعلیم کا ذکر تھا ،لیکن آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد اب ہائیر ایجوکیشن کو قانونی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز ریلیز ہونے کے بعد اب فرانس میں فل برائٹ سکالرشپ پر پڑھنے والے پاکستانی طلباء کی مالی مشکلات حل ہو گئی ہیں۔
جاوید لغاری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تعلیمی شعبے کو سیاسی دخل اندازی سے پاک رکھنا اگرچہ مشکل کام ہے ، لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایک آزاد ادارہ ہے ۔ اس کا اپنا انتظامی ڈھانچہ ہے ۔ اب یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی ایک سخت مسابقتی عمل کے بعد میرٹ کی بنیاد پر منتخب کئے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ کے ترقیوں کا نظام میرٹ پر مبنی ہے ۔اساتذہ کی ترقیاں ان کے شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں اور پی ایچ ڈی طلباء کی تعداد پر مبنی ہوتی ہیں ۔
جاوید لغاری نے بتایا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تحت اس وقت ساڑھے سات ہزار افراد پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ، ان میں سے تین ہزار غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اور چار ہزار پاکستان کے اندر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں یونیورسٹی سطح کی فیکلٹی میں20 ہزار اساتذہ ہیں ، جن میں سے چھ ہزار کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے ۔ اگلے دس برسوں میں یونیورسٹی فیکلٹی کی تعداد بڑھ کر چ40 ہزار ہو جائے گی ۔ مگر یہ بھی پاکستان کی ضرورت سے کم ہے۔
جاوید لغاری نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ملنے والی گرانٹ کے خرچ کا سارا نظام مکمل طور پر شفاف ہو۔ اور تمام فل برائٹ سکالرشپ میرٹ کی بنیاد پر دیئے جائیں ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل پاکستان میں تعلیم کے شعبے خصوصا ٹیکنالوجی اور سائینس کے مضامین میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا راستہ ہموار کرنا ہے تاکہ پاکستانی نوجوانوں میں تنقیدی سوچ پیدا ہو اور اپنے ملک کے تعلیمی اداروں میں اس تنقیدی سوچ کو فروغ دیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے سوات، کوہاٹ ، چارسدہ میں یونیورسٹیز قائم کی ہیں اور بلوچستان میں ایک ویمن یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی گئی ہے ۔تاکہ ان علاقوں کے نوجوانوں اور خواتین کے لئے اعلی تعلیم کے مواقع پیدا کئے جائیں ، جہاں پچھلے کچھ برسوں میں شدت پسند ی کو پنپنے کا موقعہ ملا ہے ۔
پاکستان کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین جاوید لغاری نے کہا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے رجحانات کا براہ راست تعلق تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، غربت اور نا خواندگی کے چیلنجز سے ہے ۔پاکستان میں تعلیم کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار کا دوسے تین فیصد خرچ کیا جاتا ہے ۔ جبکہ ہائیر ایجوکیشن کے حصے میں اس رقم کا صرف بارہ فیصد آتا ہے ۔
جاوید لغاری نے، جو ان دنوں واشنگٹن میں امریکی حکام اور امدادی اداروں کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ، ووڈرو ولسن سینٹر فار سکالرز میں اردو وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان میں اعلی تعلیم کے میدان کا ایک کامیاب ماڈل ہے اور اس تعلیمی ماڈل کوپاکستان میں پرائمری اور ڈگری سطح کے تعلیمی شعبے کی بہتری کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نچلے درجے کی تعلیم کا شعبہ پاکستان میں صوبوں کے زیر انتظام ہے اور اس شعبے کی بہتری کے لئے ملنے والی غیر ملکی امداد کو زیادہ موثر طور پر استعمال کرنے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ماڈل کو نچلی سطح کے تعلیمی شعبے پر لاگو کیا جانا بہتری کا ایک راستہ ہو سکتا ہے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
جاوید لغاری کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے پاکستانی آئین میں اعلیٰ تعلیم کا نہیں، صرف تعلیم کا ذکر تھا ،لیکن آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد اب ہائیر ایجوکیشن کو قانونی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز ریلیز ہونے کے بعد اب فرانس میں فل برائٹ سکالرشپ پر پڑھنے والے پاکستانی طلباء کی مالی مشکلات حل ہو گئی ہیں۔
جاوید لغاری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تعلیمی شعبے کو سیاسی دخل اندازی سے پاک رکھنا اگرچہ مشکل کام ہے ، لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایک آزاد ادارہ ہے ۔ اس کا اپنا انتظامی ڈھانچہ ہے ۔ اب یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی ایک سخت مسابقتی عمل کے بعد میرٹ کی بنیاد پر منتخب کئے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ کے ترقیوں کا نظام میرٹ پر مبنی ہے ۔اساتذہ کی ترقیاں ان کے شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں اور پی ایچ ڈی طلباء کی تعداد پر مبنی ہوتی ہیں ۔
جاوید لغاری نے بتایا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تحت اس وقت ساڑھے سات ہزار افراد پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ، ان میں سے تین ہزار غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اور چار ہزار پاکستان کے اندر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں یونیورسٹی سطح کی فیکلٹی میں20 ہزار اساتذہ ہیں ، جن میں سے چھ ہزار کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے ۔ اگلے دس برسوں میں یونیورسٹی فیکلٹی کی تعداد بڑھ کر چ40 ہزار ہو جائے گی ۔ مگر یہ بھی پاکستان کی ضرورت سے کم ہے۔
جاوید لغاری نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ملنے والی گرانٹ کے خرچ کا سارا نظام مکمل طور پر شفاف ہو۔ اور تمام فل برائٹ سکالرشپ میرٹ کی بنیاد پر دیئے جائیں ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل پاکستان میں تعلیم کے شعبے خصوصا ٹیکنالوجی اور سائینس کے مضامین میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا راستہ ہموار کرنا ہے تاکہ پاکستانی نوجوانوں میں تنقیدی سوچ پیدا ہو اور اپنے ملک کے تعلیمی اداروں میں اس تنقیدی سوچ کو فروغ دیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے سوات، کوہاٹ ، چارسدہ میں یونیورسٹیز قائم کی ہیں اور بلوچستان میں ایک ویمن یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی گئی ہے ۔تاکہ ان علاقوں کے نوجوانوں اور خواتین کے لئے اعلی تعلیم کے مواقع پیدا کئے جائیں ، جہاں پچھلے کچھ برسوں میں شدت پسند ی کو پنپنے کا موقعہ ملا ہے ۔