پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ ترین اضافے کے بعد تقریباً تمام قسم کے ایندھن کے نرخ 100 روپے فی لیٹر سے تجاوز کر گئے ہیں۔
ملک میں تیل اور گیس کی قیمتوں کا تعین کرنے والے سرکاری ادارے ’اوگرا‘ نے ماہوار جائزے کے بعد ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ایندھن کی نئی قیمتوں کا اعلان کیا جو یکم اپریل سے ملک بھر میں نافذ العمل ہو گئی ہیں۔
اوگرا کے نوٹیفیکشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت 8.2 فیصد اضافے کے بعد 105 روپے 68 پیسے جب کہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ایندھن ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت سات فیصد اضافے کے بعد 135 روپے 81 پیسے ہو گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت بھی ساڑھے پانچ فیصد بڑھا دی گئی ہے جس کہ بعد یہ 101 روپے 69 پیسے فی لیٹر کے حساب سے بک رہا ہے۔
اس سے قبل وزارتِ پیٹرولیم و قدرتی وسائل نے گاڑیوں میں استعمال ہونے والے نسبتاً سستے ایندھن ’کمپریسڈ نیچرل گیس‘ یا سی این جی کی قیمت میں نمایاں اضافے کا اعلان کیا تھا جو یکم اپریل سے نافذ العمل ہو گیا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ ترین اضافے پر عام لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
لاہور میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک صارف کا کہنا تھا کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ مزید مہنگائی کا سبب بنے گا۔ ’’اس کو مہنگا کرنے سے کرائے سے لے کر روزمرہ استعمال کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہیں۔‘‘
ایک اور شخص نے پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری حکومت اپنے سارے اخراجات پیٹرول (پر محصولات سے حاصل ہونے والی آمدن) سے پورے کرنا چاہ رہی ہے۔ سارا بجٹ پیٹرول کی آمدن پر رکھ دیا ہے۔‘‘
حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ اگرچہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بھی مذمت کر رہی ہے مگر لوگ اس جماعت کو بھی اس صورت حال کی اجتماعی ذمہ داری سے مبرا قرار نہیں دیتے۔
بعض لوگوں کے خیال میں حالیہ مہینوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیا گیا مسلسل اضافہ انتخابات سے قبل کی ایک سیاسی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔
’’اصل میں یہ حکومت کی پالیسی ہے کیوں کہ آئندہ الیکشن آ رہے ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد انھیں کم کرکے عوام کو رعایت فراہم کرنے کا تاثر دیا جائے گا، اس لیے یہ اضافہ زیادہ دیر نہیں ہو گا اگلے دو، تین مہینوں بعد قیمتیں کم ہو جائیں گی۔‘‘
ملک میں ٹرانسپورٹرز کی تنظیموں نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا نا کیا گیا تو وہ کرائے بڑھانے پر مجبور ہوں گے۔
اوگرا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے حکومت کو عوام کی سہولت کی خاطر پیٹرولیم مصنوعات پر اضافی ٹیکس کا بوجھ خود برداشت کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کو مسترد کر دیا گیا۔
حکومت نے اخباروں میں اشتہارات کے ذریعے بظاہر اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں استعمال ہونے والی 85 فیصد پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں اور بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے حساب سے ہی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کیا جاتا ہے۔
حکومت کا یہ کہنا بھی ہے کہ دیگر ملکوں کی نسبت اب بھی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات سستی ہیں اور اس مد میں عوام کو رعایت فراہم کرنے سے ’’قومی خزانے کو ہر ماہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے‘‘۔