پاکستان میں محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں ایبولا وائرس کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک حکمت علمی تیار کر لی گئی ہے۔
اس ضمن میں بدھ کو وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز اور عالمی ادارہ صحت نے مشترکہ طور پر ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس منعقد کیا جس میں مسلح افواج اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
وفاقی وزیر مملکت برائے قومی ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ حکومت کی توجہ اُن افریقی ممالک سے آنے والے مسافروں پر ہو گی جہاں ایبولا وائرس موجود ہے۔
’’وہ مسافر جو اُن ممالک سے ہمارے پاس آتے ہیں، اُن کی ائیر پورٹ پر اسکرینگ اور شناخت کے بعد اُن پر نظر رکھنا اولین ترجیح ہے۔ دوسرے نمبر پر اگر اسپتالوں میں ایبولا سے متاثرہ کوئی مریض آ جاتا ہے تو وہاں کے عملے کی تربیت کرنا بھی شامل ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
ایبولا وائرس سے اب تک چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ افراد کی تشخیص لائبیریا میں ہوئی ہے جب کہ دیگر سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں گنی اور سیرا لیون شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل پاکستانی فوج کے دستے کئی افریقی ممالک بشمول لائبیریا میں بھی تعینات ہیں۔
سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے بھی اس سلسلے میں خصوصی انتظامات کیے ہیں۔
’’ہمارا ایک امن مشن لائبیریا میں ہے، اُس کے لیے مسلح افواج نے ایک الگ طریقہ کار بھی وضع کر رکھا ہے۔ وہاں سے نکلنے سے پہلے اور یہاں پر بھی (اہلکاروں کی اسکرینگ) کی جاتی ہے۔‘‘
وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں کو ایبولا وائرس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ہدایت کی ہے اور متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی ہوائی اڈوں کے قریب اسپتالوں کی نشاندہی کر کے وہاں ممکنہ متاثرہ مریضوں کے لیے خصوصی کمرے مختص کریں۔
اس کے لیے ملک میں تمام داخلی راستوں بشمول بندرگاہوں پر حفاظتی انتظامات کرنے کے علاوہ بعض اسپتالوں کے طبی عملے کے لیے ضروری تربیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
حکام کہنا ہے کہ وہ اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں پاکستان آنے والی پروازوں کے اندر یا پھر ہوائی اڈوں پر خصوصی آگاہی مراکز قائم کیے جائیں۔
پاکستان میں تاحال ایبولا سے متعلق کوئی کیس سامنے نہیں آیا لیکن دنیا بھر میں اس بارے میں حفاظتی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔