شمالی وزیرستان کے شوال نامی قصبے میں اتوار کی رات ہونے والے ڈرون حملے میں چھ مبینہ شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان نے افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے میں تازہ مبینہ امریکی ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کارروائیوں کے فی الفور خاتمے کی اہمیت کو دہرایا ہے۔
شمالی وزیرستان کے شوال نامی قصبے میں اتوار کی رات ہونے والے ڈرون حملے میں چھ مبینہ شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق نشانہ بنائے گئے افراد افغان سرحد عبور کر کے پاکستانی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔ ان افراد کی شناخت کے بارے میں کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ سے پیر کی صبح جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کی جانب سے کی جانے والی یک طرفہ کاروائیاں پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ حکومتِ پاکستان بار ہا یہ کہتی آئی ہے کہ ڈرون حملے نا صرف غیر سود مند ہیں بلکہ ان سے میں معصوم جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق ڈرون حملوں کے باعث پاکستان اور امریکہ کے مابین خوشگوار اور باہمی اشتراک پر مبنی تعلقات استوار کرنے اور خطے میں امن و استحکام یقینی بنانے کی مشترکہ خواہش پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
امریکی حکام کا ماننا ہے کہ ڈرون پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف سرگرم شدت پسندوں کے خلاف ایک اہم ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں۔
تاہم ڈرون حملوں کا معاملہ گزشتہ کئی برسوں سے پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ رہا ہے۔ پاکستان عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کے متوقع دورہ پاکستان کے دوران بھی ڈرون حملوں کا معاملہ اُٹھائیں گے۔
گزشتہ ہفتے امریکی سفیر رچرڈ اولسن کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جان کیری کا دورہ اسلام آباد آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے تاہم تاحال اس بارے میں کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
شمالی وزیرستان کے شوال نامی قصبے میں اتوار کی رات ہونے والے ڈرون حملے میں چھ مبینہ شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق نشانہ بنائے گئے افراد افغان سرحد عبور کر کے پاکستانی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔ ان افراد کی شناخت کے بارے میں کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ سے پیر کی صبح جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کی جانب سے کی جانے والی یک طرفہ کاروائیاں پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ حکومتِ پاکستان بار ہا یہ کہتی آئی ہے کہ ڈرون حملے نا صرف غیر سود مند ہیں بلکہ ان سے میں معصوم جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق ڈرون حملوں کے باعث پاکستان اور امریکہ کے مابین خوشگوار اور باہمی اشتراک پر مبنی تعلقات استوار کرنے اور خطے میں امن و استحکام یقینی بنانے کی مشترکہ خواہش پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
امریکی حکام کا ماننا ہے کہ ڈرون پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف سرگرم شدت پسندوں کے خلاف ایک اہم ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں۔
تاہم ڈرون حملوں کا معاملہ گزشتہ کئی برسوں سے پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ رہا ہے۔ پاکستان عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کے متوقع دورہ پاکستان کے دوران بھی ڈرون حملوں کا معاملہ اُٹھائیں گے۔
گزشتہ ہفتے امریکی سفیر رچرڈ اولسن کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جان کیری کا دورہ اسلام آباد آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے تاہم تاحال اس بارے میں کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔