پاکستان میں وفاقی بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع کے لئے مختص کیا جانا ہمیشہ زیر تنقید رہا ہے، لیکن غیر جانبدار اقتصادی ماہرین کی رائے میں ملک کی سلامتی کو درپیش موجودہ خطرات اس قدر سنگین ہیں کہ آئندہ ماہ متوقع بجٹ میں دفاعی اخراجات میں اضافے کا مکمل جواز موجود ہے اور اس میں کمی کسی بھی طرح دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔
اْمور معاشیات کے ماہر اور وفاقی حکومت کے سابق مشیر ثاقب شیرانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اتوار کی رات کراچی میں بحریہ کے اڈے پر دہشت گردانہ حملہ ایک واضح انتباہ ہے کہ پاکستان کی دفائی تنصیبات کن خطرات سے دوچار ہیں۔
”اس حملے میں دو طیاروں کی تباہی سے ہونے والے نقصان کو اگر آپ دیکھیں تو یہ دس کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے، سکیورٹی کی تنصیبات پر حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ کل رات کا حملہ آخری نہیں ہو گا۔“
ثاقب شیرانی کی رائے میں اہمیت اس بات کی ہے کہ دفاعی اخراجات میں شفافیت ہو اور اس بات کی تسلی ہو کہ پیسے صحیح جگہ پر خرچ ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں واقعی ملک کا دفاع مضبوط ہو رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان اپنے کل بجٹ کا تقریبا تئیس فیصد دفاع کے لئے مختص کرتا ہے اور ناقدین اس میں کٹوتی پر زور دیتے ہیں کیونکہ ان کی رائے میں اس قدر زیادہ رقم دفاع پر خرچ ہونے سے سماجی ترقی کے لیے بہت کم وسائل بچتے ہیں اور نتیجتاً صحت اور تعلیم کے شعبے پسماندگی کا شکار رہتے ہیں۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ اقتصادیات کے سربراہ پروفیسر اطہر مقصود کا کہنا ہے کہ صرف سماجی شعبے کی ترقی یا مالی خسارے کو کم کرنے کے لئے قومی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔
”اگر مالی خسارہ کم کرنا ہے تو اس کا حل دفاعی بجٹ کی کٹوتی نہیں بلکہ مالی نظم بہتر کرنے کی ضرورت ہے (یعنی) متعدد غیر پیداواری منصوبوں کی مد میں بھاری اخراجات کو کم کیا جائے اس کے علاوہ وہ سرکاری ادارے جو بھاری خساروں کی وجہ سے بوجھ بنے ہوئے ہیں اس سے پیچھا چھڑایا جائے۔“
اقتصادی ماہر کی رائے میں پاکستان اپنے دفاعی بجٹ میں کمی کا اس وقت تک متحمل نہیں ہو سکتا جب تک امن و امان کی صورتحال پوری طرح تسلی بخش نا ہو جائے ”جس کے لئے ابھی بہت کام اور انتظار کرنا باقی ہے“۔
ثاقب شیرانی بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بہتر مالی نظم ملک کو ایک بھاری نقصان سے بچا سکتا ہے کیوں کہ حکومت کے سابق مشیر کے ذاتی جائزے کے مطابق تاریخی طور پر صرف ناقص طرز حکمرانی اور بے ضابطگیاں سالانہ مجموعی ملکی پیداوار کے پانچ سے سات فیصد ضیاع کا سبب بنتی آئی ہیں۔