پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اعتراف کیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان سے بھی لوگ شدت پسند گروہ ’داعش‘ میں شمولیت کے لیے شام یا عراق گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اب تک کی تحقیقات سے یہ معلوم ہے ’داعش‘ میں شمولیت کے لیے شام یا عراق جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان میں کسی صوبے کے سینیئر وزیر کی طرف سے اس بارے میں کوئی واضح بیان سامنے آیا ہو۔
رانا ثنا اللہ نے پیر کو لاہور میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ ’’دوسرے ملکوں سے تو (داعش میں شمولیت) کے لیے سینکڑوں لوگ گئے ہیں۔ پاکستان سے (جانے والے) ان لوگوں کی تعداد جو اب تک کی ہماری انکوائری ہے اس کے مطابق ایک سو سے زیادہ نہیں ہے۔‘‘
اُنھوں نے اس بارے میں مزید کہا کہ ’’پوری دنیا سے لوگ عراق اور شام جا رہے ہیں، برطانوی حکومت نے آن دی ریکارڈ کہا ہے کہ 700 سے زائد لوگ وہاں سے گئے ہیں۔ فرانس سے 1000 سے زائد لوگ (داعش) میں شمولیت کے لیے گئے۔ آج تک کسی بھی جگہ پر یہ نہیں کہا گیا کہ فرانس میں داعش کا وجود ہے یا وہاں پر داعش نے قبضہ کر لیا ہے یا وہاں پر اُس نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔‘‘
صوبائی وزیر قانون نے ایک مرتبہ پھر حکومت کے اس عزم کو دہرایا کہ ’’اس وبا کو پنجاب میں یا پاکستان میں جڑ نہیں پکڑنے دیں گے۔‘‘
رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے گزشتہ چند روز کے دوران پنجاب کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے ’داعش‘ سے وابستہ 42 مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے وہ ’داعش‘ کی طرف سے لوگوں کو راغب کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
اطلاعات کے مطابق گرفتار کیے گئے افراد میں مبینہ طور پر ’داعش‘ کا اسلام آباد کے لیے سربراہ عامر منصور، اُس کا نائب عبداللہ منصوری اور اس گروہ کا سندھ کے لیے سربراہ عمر کاٹھیو شامل ہے۔
حکام کے مطابق جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اُن کے قبضے سے ’داعش‘ کی حمایت سے متعلق تحریری و تشہہری مواد کے علاوہ اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔
صوبہ پنجاب میں ’داعش‘ سے وابستہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں تیزی گزشتہ ہفتے سیالکوٹ اور اس کے اردگرد کے علاقوں سے 13 مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد آئی۔
پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کے مطابق سیالکوٹ اور اس کے اردگرد کے علاقوں سے جن مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا تھا وہ ’داعش‘ کے لوگوں سے شام میں رابطے میں تھے۔
گزشتہ ہفتے ہی یہ خبر بھی سامنے آئی کے لاہور سے تعلق رکھنے والی تین خواتین سمیت متعدد افراد ’داعش‘ میں شمولیت کے لیے شام گئے ہیں۔
پنجاب حکومت کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔
پاکستان میں عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ شدت پسند گروہ ’داعش‘ کی ملک میں منظم موجودگی نہیں ہے تاہم حکومت اس خطرے سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور ملک کے سکیورٹی کے ادارے اس سے نمٹنے کے لیے چوکس ہیں۔