ڈی ایٹ کانفرنس: رکن ملکوں کے سربراہان مملکت کی پاکستان آمد

انڈونیشیا کے صدر کا اسلام آباد پہنچنے پر وفاقی وزیر دفاع نے استقبال کیا

آٹھویں سربراہ اجلاس میں علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کے علاوہ رکن ممالک کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے جیسے معاملات زیر بحث آئیں گے۔
دنیا کے آٹھ ترقی پذیر مسلمان ملکوں کی نمائندہ تنظیم ڈی ایٹ کی وزارتی کونسل کا پندرہواں اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں بدھ کو آئندہ دو سال کے لیے کونسل کی صدارت پاکستان کے سپرد کردی گئی۔ اس سے قبل یہ ذمہ داری نائیجیریا کے پاس تھی۔

وزارتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ رکن ملکوں کو اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے معاشی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں پائیدار ترقی کے لیے نجی شعبے کی شراکت داری بہت ضروری ہے اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بھی باقاعدہ اجلاس ہونے چاہیئیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وزارتی کونسل کا اجلاس بڑی اہمیت کا حامل تھا جس میں مشترکہ مسائل اور ان کے حل کا جائزہ لیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ سربراہ اجلاس کے دوران دو اہم دستاویزات ڈی ایٹ چارٹر اور گلوبل ویژن پر دستخط ہوں گے۔

دریں اثناء جمعرات کو اسلام آباد میں ہونے والے ڈی ایٹ سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے رکن ممالک کے صدور کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ بدھ کو ایران کے صدر محمود احمدی نژاد، نائیجیریا کے صدر جوناتھن گُڈلک اور انڈونیشیا کے سربراہ سوسیلو بمبانگ یودھویونو اسلام آباد پہنچے۔

سرکاری خبر رساں اداے اے پی پی کے مطابق مشرق وسطی میں حالیہ کشیدگی پاکستان اور اس کانفرنس میں شریک رہنماوں کے درمیان بات چیت میں ممکنا طور پر ایک اہم نکتہ ہوگا۔

سربراہ اجلاس کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ جمعرات کو شہر میں عام تعطیل ہوگی۔

ڈی ایٹ ممالک میں پاکستان کے علاوہ ترکی، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا، مصر، بنگلہ دیش، نائجیریا شامل ہیں۔

مزید سربراہان مملکت کے علاوہ رکن ممالک کی معروف تجارتی کمپنیوں کے نمائندے بھی شرکت کررہے ہیں۔

1997ء میں بننے والی ڈی ایٹ تنظیم کے ہونے والے آٹھویں سربراہ اجلاس میں علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کے علاوہ رکن ممالک کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے جیسے معاملات زیر بحث آئیں گے۔

ڈی ایٹ ممالک کی منڈی کی مالیت دس کھرب ڈالر ہے اور رکن ملکوں کی کوشش ہے کہ 2018 تک باہمی تجارت کا حجم بڑھا کر 500 ارب ڈالر تک ہوجائے۔