انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کے خلاف تین ایک روزہ میچز کی سیریز میں دو، صفر کی فیصلہ کن برتری حاصل کر لی ہے جس کے بعد انگلینڈ کے کئی نامور کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں ایک ناتجربہ کار انگلش ٹیم سے شکست پر پاکستانی کرکٹ ٹیم اور انتظامیہ کو تنقید کا سامنا ہے۔
تین میچوں پر مشتمل ون ڈے سیریز کے پہلے دو میچز میں شکست کے بعد نہ صرف گرین شرٹس کے ہاتھ سے 47 برس بعد گوروں کے دیس میں سیریز جیتنے کا موقع چلا گیا بلکہ وہ ایک ایسی ٹیم سے ہار گئی جس کا کپتان بھی نیا تھا اور کھلاڑی بھی ناتجربہ کار تھے۔
انگلش ون ٹیم کے مستقل کپتان اوئن مورگن جو سری لنکا کے خلاف سیریز کے بعد سے کھلاڑیوں کے ساتھ قرنطینہ میں ہیں۔ انہوں نے اپنے نائب بین اسٹوکس کی قیادت میں اس تاریخی فتح کو خوب سراہا۔
پہلے میچ میں قومی ٹیم نے جیسے تیسے کر کے 141 رنز کا ٹوٹل اسکور بورڈ پر سجایا لیکن اس کا دفاع نہ کر سکی، دوسرے میچ میں حسن علی کی شان دار بالنگ کے باوجود پوری ٹیم 248 رنز کے تعاقب میں صرف 195 رنز بنا کر ہی آؤٹ ہو گئی۔
اور یوں 47 برس بعد انگلینڈ کو ون ڈے سیریز میں شکست دینے کا خواب دیکھنے والی ٹیم کا سفر، دو صفر سے شکست پر ختم ہوا۔
یہاں تک کہ کرکٹ کی سب سے معتبر ویب سائٹ کرک انفو کو بھی یہ سوال پوچھنا پڑ گیا کہ آخر انگلینڈ میں موجود پاکستان ٹیم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟
آخر انگلینڈ میں موجود پاکستان ٹیم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟
کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں موجود پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ایک نہیں کئی مسائل ہیں جو کرکٹ شائقین اور مبصرین کو تو نظر آتے ہیں، لیکن کرکٹ بورڈ کو نہیں۔ نہ تو ٹیم کا بیٹنگ آرڈر مقامی کنڈیشنز کو مدِنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کا چناؤ کسی منصوبے کے تحت نظر آتا ہے۔
یہاں تک کہ انگلینڈ کی ٹیم جس کے کھلاڑیوں کا انتخاب ہی سیزیز سے دو دن پہلے ہوا، اس کے کھلاڑی اس طرح پاکستان پر جھپٹ رہے ہیں جیسے شاہین وہ ہوں اور شکار پاکستانی ٹیم۔
سوائے فخر زمان، بابر اعظم اور سعود شکیل کے کوئی بھی بلے باز سوئنگ اور سیم کنڈیشنز کو سمجھ کر نہیں کھیل رہا۔ اب تک سیریز میں پاکستان کی جانب سے صرف ایک ہی نصف سینچری اسکور ہوئی ہے اور وہ بھی اپنا دوسرا میچ کھیلنے والے سعود شکیل نے اسکور کی۔
اوپنر امام الحق نے اب تک دو میچز میں تین گیندوں کا سامنا کیا اور صرف ایک رن اسکور کیا۔ ان فارم بلے باز محمد رضوان جو ٹی ٹوئنٹی میں اننگز کا آغاز کرتے ہیں، وہ نمبر چار پر اچھی بیٹنگ کرنے میں ناکام رہے۔
پی ایس ایل میں نمبر تین پر بیٹنگ کر کے شان دار کارکردگی دکھانے والے صہیب مقصود کو نمبر چھ اور بغیر کسی پرفارمنس کے ٹیم میں موجود شاداب خان کو کھلانے پر بھی ناقدین اعتراض اُٹھا رہے ہیں۔
نچلے نمبروں پر بیٹنگ کرنے اور دوسرے ون ڈے میچ کے ایک اوور میں 22 رنز بنانے والے حسن علی کو نمبر نو پر بھیجا جا رہا ہے جب کہ ان سے اوپر فہیم اشرف آ رہے ہیں جنہوں نے ایک میچ میں 12 گیندوں پر پانچ اور دوسرے میں نو گیندوں پر ایک رن بنایا۔
بہتر لیگ اسپنر عثمان قادر کے ہوتے ہوئے ٹیم میں مسلسل ناکام ہونے والے شاداب خان کا ہونا، حارث رؤف کا مسلسل انٹرنیشنل میچز میں رنز دینا اور شاہین شاہ آفریدی کا کم وکٹیں لینا پاکستان کے لیے کسی دردِ سر سے کم نہیں۔
'ہماری ٹیم آٹو موڈ میں چل رہی ہے'
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ساتھ کئی برسوں تک جڑے رہنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب قومی ٹیم کا انتخاب ڈومیسٹک کرکٹ دیکھ کر نہیں کیا جاتا تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ انگلینڈ میں ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہماری ٹیم اس قابل ہی نہیں کہ وہ تسلسل کے ساتھ اچھا پرفارم کرے۔
اُن کے بقول "دنیا بھر میں ٹیمیں ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر پروان چڑھتی ہیں، لیکن ہماری ٹیم ٹریننگ کیمپس لگا کر تیار ہوتی ہے۔ اس لیے میں اسے آٹو موڈ میں ہی سمجھوں گا۔ ہم ڈومیسٹک کی سطح پر بہت کم ون ڈے میچز کھیلتے ہیں اور ٹی ٹوئنٹی زیادہ کھیلتے ہیں۔"
سینئر کمنٹیٹر اور تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ قومی ٹیم کو آٹو موڈ میں تو نہیں سمجھتے لیکن اس ناکامی کا ذمہ دار وہ قومی ٹیم کے کوچز کو قرار دیتے ہیں۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹی ٹیموں کے خلاف جیت کر خوش ہوتے ہیں، مضبوط ٹیم کے سامنے آتے ہی کھلاڑیوں کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔
اُن کے بقول "پاکستان کرکٹ ٹیم کو تو نہیں کہہ سکتے کہ آٹو موڈ میں چل رہی ہے لیکن جو بڑے بڑے ناموں والے کوچز ہیں جس میں مصباح الحق اور وقار یونس شامل ہیں، وہ ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے۔ ہم چھوٹی ٹیموں کے خلاف جیت جاتے ہیں اور خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں لیکن جب بھی کوئی مضبوط ٹیم سامنے آتی ہے تو پھر اس کے خلاف ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔"
انہوں نے قومی ٹیم کی حالیہ کامیابیوں کو بھی ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ کو ان کی سرزمین پر دو ایک سے سیریز تو ہرائی، لیکن اس وقت جب ان کے کچھ کھلاڑی آئی پی ایل کھیلنے چلے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ون ڈے کرکٹ میں امام الحق کی بیٹنگ اوسط اچھی ہے، لیکن وہ بڑی ٹیموں کے خلاف فیل ہو جاتے ہیں۔
'قومی ٹیم ابھی تک پی ایس ایل کے ٹی ٹوئنٹی موڈ سے باہر نہیں آ رہی'
مرزا اقبال بیگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی ٹیم پی ایس ایل موڈ سے باہر نہیں آ رہے اور یہی پاکستان کرکٹ کی ون ڈے کرکٹ میں ناقص کارکردگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "جو کھلاڑی اچھا پرفارم کرتا ہے ٹیم میں آجاتا ہے، چاہے وہ اس فارمیٹ میں اچھا نہ بھی ہو۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ چیف سلیکٹر محمد وسیم لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں اور سلیکشن کے وقت بڑے اعداد و شمار دکھاتے ہیں، لیکن ٹیم کی کارکردگی پھر بھی بہتر نہیں ہو رہی۔
ہارون رشید کے مطابق جب کسی ملک کے ڈومیسٹک لیول اور انٹرنیشنل لیول میں زیادہ فرق ہوتا ہے، تو ایسی سیریز میں صاف نظر آجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انگلینڈ کا ڈومیسٹک اسٹرکچر مضبوط ہے، اسی لیے نئے آنے والے کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ میں ایڈجسٹ ہونے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔
بقول ہارون رشید، جب ہم اپنی ڈومیسٹک کرکٹ کو انٹرنیشنل کرکٹ کے معیار کے قریب نہیں لائیں گے تو ہماری ٹیم ایک دو میچز میں تو کامیابیاں حاصل کرتی رہے گی،لیکن کارکردگی میں تسلسل نہیں آئے گا۔
انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ٹی ٹوئنٹی میں کرکٹ شائقین قومی ٹیم سے کچھ حد تک بہتری کی امید رکھ سکتے ہیں۔
دوسری جانب مرزا اقبال بیگ کا کہنا تھا کہ ٹیم انگلینڈ کی ناتجربہ کار کھیلی، لیکن تجربہ اور پلاننگ کا فقدان پاکستان کیمپ میں نظر آیا۔