پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک اور سابق سربراہ توقیر ضیا نے اس صورتحال کو جلد بہتر کرنے کے لیے سرپرست اعلیٰ کو کسی واضح حکمت عملی پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں کرکٹ سے لگاؤ اور اس کی پسندیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور حالیہ برسوں میں صرف یہی ایک کھیل ہے جس میں اتارچڑھاؤ کے باوجود پاکستان اپنا مقام کھیلوں کی بین الاقوامی دنیا میں برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
لیکن گزشتہ ایک سال سے اس کھیل کے انتظامی ادارے پاکستان کرکٹ بورڈ میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے باعث مبصرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس کے پاکستانی کرکٹ اور اس کھیل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ایک سال کے دوران کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے عہدے کے لیے دو مختلف شخصیات کے درمیان بظاہر "رسہ کشی" کی سی صورتحال میں مبصرین کے بقول کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی میں پاکستان کی رکنیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھ سکتے ہیں۔
کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین عارف عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "وہ (آئی سی سی) پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ آپ کے بورڈ میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے کسی بھی ایسوسی ایشن کسی بھی ممبر کے ہمارے اور آپ ان کو ثابت کر رہے ہیں کہ ہم تو بیرونی مداخلت کے بغیر کر ہی نہیں سکتے۔ اب آپ کے یہاں ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ میں کورٹ جاؤں گا، آپ جب کورٹ جائیں گے یا میں حکومت سے بات کروں گا ارے گورنمنٹ سے کیوں بات کریں گے آپ کو تو خودمختار ادارہ ہونا تھا۔"
گزشتہ سال اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرکٹ بورڈ کے سربراہ ذکا اشرف کو ان کے انتخاب کے طریقہ کار میں بے ضابطگیوں کی شکایت پر کام کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے سینیئر صحافی اور پنجاب کے سابق نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کو پی سی بی کا عبوری چیئرمین مقرر کیا۔
رواں سال کے اوائل میں عدالت نے ذکا اشرف کی درخواست پر انھیں دوبارہ اس عہدے پر بحال کیا لیکن کچھ ہی دن بعد وزیراعظم نے انھیں برطرف کرتے ہوئے ایک عبوری کمیٹٰی بنائی جس نے ایک بار پھر نجم سیٹھی کو چیئرمین مقرر کردیا۔
اس برطرفی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر ہفتہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذکا اشرف کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا۔
عارف عباسی کے بقول اس کھیل تماشے سے پاکستان کرکٹ کی ساکھ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
"آج آپ کی پوزیشن یہ ہے کہ آپ ہر کسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں پہلے دنیا آپ کے پیچھے بھاگتی تھی، جو بھی کرکٹ میں مختلف چیزیں آئیں وہ پاکستان نے کیں اور پھر پاکستان آج اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ ساری دنیا میں آپ ایک قسم کا مذاق بن گئے ہیں۔"
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک اور سابق سربراہ توقیر ضیا نے اس صورتحال کو جلد بہتر کرنے کے لیے سرپرست اعلیٰ کو کسی واضح حکمت عملی پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں وزیراعظم کو اس میں دلچسپی لینی چاہیئے۔
"کسی نہ کسی کو تو اس میں دلچسپی لینا ہوگی، اگر وزیراعظم صاحب اس کے سرپرست بنے ہیں وہ خود ایک اسپورٹس مین ہیں ان کو چاہیئے کہ معاملات کو ذرا تھوڑا مانیٹر کریں اس کو سنبھالیں تاکہ ایک واحد کھیل رہ گیا ہے آپ کے پاس جس میں تھوڑا بہت پیسہ ہے اگر اس کو صحیح طریقے سے چلانا ہے اور پیسہ ضائع نہیں کرنا تو اس میں دلچسپی تو لینا پڑے گی۔"
ذکا اشرف کی طرف سے ذرائع ابلاغ میں یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ کرکٹ بورڈ میں کی جانے والی تبدیلیوں کا از سر نو جائزہ لے کر حکمت عملی وضع کریں گے جب کہ اتوار کو مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نجم سیٹھی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
لیکن گزشتہ ایک سال سے اس کھیل کے انتظامی ادارے پاکستان کرکٹ بورڈ میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے باعث مبصرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس کے پاکستانی کرکٹ اور اس کھیل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ایک سال کے دوران کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے عہدے کے لیے دو مختلف شخصیات کے درمیان بظاہر "رسہ کشی" کی سی صورتحال میں مبصرین کے بقول کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی میں پاکستان کی رکنیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھ سکتے ہیں۔
کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین عارف عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "وہ (آئی سی سی) پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ آپ کے بورڈ میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے کسی بھی ایسوسی ایشن کسی بھی ممبر کے ہمارے اور آپ ان کو ثابت کر رہے ہیں کہ ہم تو بیرونی مداخلت کے بغیر کر ہی نہیں سکتے۔ اب آپ کے یہاں ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ میں کورٹ جاؤں گا، آپ جب کورٹ جائیں گے یا میں حکومت سے بات کروں گا ارے گورنمنٹ سے کیوں بات کریں گے آپ کو تو خودمختار ادارہ ہونا تھا۔"
گزشتہ سال اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرکٹ بورڈ کے سربراہ ذکا اشرف کو ان کے انتخاب کے طریقہ کار میں بے ضابطگیوں کی شکایت پر کام کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے سینیئر صحافی اور پنجاب کے سابق نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کو پی سی بی کا عبوری چیئرمین مقرر کیا۔
رواں سال کے اوائل میں عدالت نے ذکا اشرف کی درخواست پر انھیں دوبارہ اس عہدے پر بحال کیا لیکن کچھ ہی دن بعد وزیراعظم نے انھیں برطرف کرتے ہوئے ایک عبوری کمیٹٰی بنائی جس نے ایک بار پھر نجم سیٹھی کو چیئرمین مقرر کردیا۔
اس برطرفی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر ہفتہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذکا اشرف کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا۔
عارف عباسی کے بقول اس کھیل تماشے سے پاکستان کرکٹ کی ساکھ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
"آج آپ کی پوزیشن یہ ہے کہ آپ ہر کسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں پہلے دنیا آپ کے پیچھے بھاگتی تھی، جو بھی کرکٹ میں مختلف چیزیں آئیں وہ پاکستان نے کیں اور پھر پاکستان آج اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ ساری دنیا میں آپ ایک قسم کا مذاق بن گئے ہیں۔"
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک اور سابق سربراہ توقیر ضیا نے اس صورتحال کو جلد بہتر کرنے کے لیے سرپرست اعلیٰ کو کسی واضح حکمت عملی پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں وزیراعظم کو اس میں دلچسپی لینی چاہیئے۔
"کسی نہ کسی کو تو اس میں دلچسپی لینا ہوگی، اگر وزیراعظم صاحب اس کے سرپرست بنے ہیں وہ خود ایک اسپورٹس مین ہیں ان کو چاہیئے کہ معاملات کو ذرا تھوڑا مانیٹر کریں اس کو سنبھالیں تاکہ ایک واحد کھیل رہ گیا ہے آپ کے پاس جس میں تھوڑا بہت پیسہ ہے اگر اس کو صحیح طریقے سے چلانا ہے اور پیسہ ضائع نہیں کرنا تو اس میں دلچسپی تو لینا پڑے گی۔"
ذکا اشرف کی طرف سے ذرائع ابلاغ میں یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ کرکٹ بورڈ میں کی جانے والی تبدیلیوں کا از سر نو جائزہ لے کر حکمت عملی وضع کریں گے جب کہ اتوار کو مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نجم سیٹھی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔