پاکستان میں کرونا وائرس کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

  • مدثرہ منظر

ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال۔

پاکستان میں حالیہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ مئی کے مہینے میں عید کے تہوار سے پہلے لاک ڈاؤن میں نرمی کے دوران لوگوں نے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے کرونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں یکدم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

تاہم، شوکت خانم کینسر میموریل اسپتال لاہور کے اینیستھیزیولوجسٹ ڈاکٹر احسن وقار خان نے بتایا کہ مریضوں کی تعداد کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے اس کے تجزیے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ ہم مریض سے کیا مراد لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جو تعداد بتائی جارہی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں کرونا وائرس کی روک تھام کیسے ممکن ہو۔

لیکن، ڈاکٹر احسن نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ان میں سے سبھی لوگ ہسپتال آئیں۔ یہ لوگ گھر پر رہ کر کچھ روز کے بعد بہتر ہونے لگتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی علامات بہتر نہیں ہوتیں اور وہ ہسپتال آتے ہیں اور یہاں بہتر ہونے کے بعد گھر چلے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی ایک تعداد ہے جو ہسپتال آتے ہیں اور یہاں ان کی حالت بہتر نہیں ہوتی اور وہ آئی سی یو میں پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں وینٹیلیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ، بقول ان کے، اس وائرس کی انفیکشن سے مختلف مراحل میں نمٹنے کے ضرورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر احسن وقار نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ پاکستان کے وسائل محدود ہیں۔لیکن کوشش یہ ہونی چاہئے کہ مریض ہمارے وسائل سے بڑھ نہ جائیں۔

ڈاکٹر اکبر خلیل پشاور میں خیبر میڈیکل کالج میں ڈینٹسٹری کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے وسائل کم سہی مگر عام لوگ اس وبا کے بارے میں سنجیدہ بھی نہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب لوگوں کے نزدیک یہ ہے کہ اب انہیں کوئی احتیاط کرنے کی ضرورت نہیں؛ جبکہ اگر لوگ ماسک پہننے کی ہی پابندی کرلیں تو بہت بچت ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر احسن وقار نے بتایا کہ اگرچہ کووڈ کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے مگر ابھی یہ نوبت نہیں آئی کہ ہسپتالوں میں جگہ نہ رہے۔ تاہم، ڈاکٹر خلیل کا کہنا ہے کہ کے پی کے میں حالات ایسے ہیں کہ ہسپتالوں میں مزید لوگوں کو داخل کرنے کی گنجاٰئیش نہیں رہی۔

پاکستان میں کرونا وائرس کی موجودگی کی خبروں کے بعد ابتدا ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے واضح کر دیا تھا کہ ملک کی ایک بڑی آبادی میں غربت کے باعث کسی مکمل لاک ڈاؤن پر عمل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے بہتر ہو گا کہ لوگ اپنے طور پر سماجی فاصلے کے قوائد پر عمل کریں۔

انھوں نے کہا کہ گھر سے باہر نکلیں تو ماسک پہنیں اور باہر سے گھر آئیں تو اپنے ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔ ڈاکٹر احسن وقار خان اور ڈاکٹر اکبر خلیل نے بھی اسی پر زور دیتے ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ ہمیں کرونا وائرس کے ساتھ جینا سیکھنا ہو گا۔ اس کی مثال ڈاکٹر اکبر خلیل اس طرح دیتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم بجلی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کی تاروں کو نہیں چھوتے کہ ایسا کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔