پاکستان کے شمالی علاقے چترال میں آباد میں قدیم ترین تصور کی جانے والی کیلاش برادری نے مردم شماری کے فارم میں اپنے مذہب کا خانہ شامل کرنے کے لیے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
کیلاش قبیلے کے لوگ چترال کے تین دیہاتوں بمبوریت، رمبور اور ایون میں آباد ہیں اور کیلاشہ نامی مذہب کے پیروکار ہیں۔
19 سال کے تعطل کے بعد پاکستان میں گزشتہ ماہ شروع ہونے والی مردم شماری کے فارم میں اس مذہب کا تذکرہ نہیں کیا گیا تھا جس پر کیلاش کے لوگوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
منگل کو دو رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے متعلقہ محکمے کو حکم دیا کہ وہ کیلاش قبیلے کے مذہب کو مردم شماری کے فارم میں شامل کرے۔
چترال میں مردم و خانہ شماری دوسرے مرحلے میں 25 اپریل سے شروع ہو گی اور عدالت عالیہ میں حکومت کی پیروی کرنے والے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا کہ دوسرے مرحلے کے لیے اس مذہب کو فارم میں شامل کر لیا جائے گا۔
کیلاش قبیلے کے ایک سرکردہ راہنما وزیرزادہ نے یہ درخواست عدالت میں دائر کی تھی اور منگل کو عدالتی فیصلے کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی برادری اس پر بہت خوش ہے۔
انھوں نے کہا کہ کیلاش قبیلے کے لوگوں کی تعداد لگ بھگ چھ ہزار ہے جو کہ اپنی الگ شناخت کی وجہ سے جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ لیکن مردم شماری میں ان کے مذہب کا تذکرہ نہیں کیا گیا جو کہ ان کے لیے ایک فکر انگیز بات تھی۔
"چونکہ الگ سے خانہ نہیں ہے تو ہمیں دیگر میں یا نا معلوم کے خانے میں لکھ دیا جاتا ہے ہم الگ شناخت رکھتے ہیں الگ مذہب رکھتے ہیں اس لیے ہم نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔۔۔تین سال پہلے ہم نے کوشش کی تھی اور اب نادرا کے ڈیٹا بیس میں بھی کیلاش کا نام آ چکا ہے اس کے باوجود مردم شماری فارم میں اسے نہیں ڈالا گیا تھا۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مردم شماری کا عمل شروع ہونے ساتھ اس بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے شکایات بھی سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں۔
مذہب کے علیحدہ سے خانہ درج کروانے کے لیے سکھ برادری نے بھی عدالت سے رجوع کیا تھا اور عدالتی حکم کے بعد سکھ مذہب کے پیروکاروں کا اندراج مردم شماری فارم میں سکھ لکھ کر ہی کیا جائے گا۔