سرکاری حکام کے اندازے کے مطابق تھری جی کی لائسنس کے فروخت سے پاکستان کو تقریباً تین ارب ڈالر حاصل ہونگے۔
اسلام آباد —
سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ملک میں ٹیلی مواصلات کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی غرض سے دو ماہ میں تھری جی ٹیکنالوجی کے لائسنس کے اجراء کا عمل مکمل کیا جائے۔
اس سلسلے میں عدالت نے کہا کہ 10 روز میں ٹیلی مواصلات یا ٹیلی کام کے شعبے کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ کے سربراہ کی تقرری بھی کی جائے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظٰمی کے تین رکنی بنچ نے پیر کو مفاد عامہ سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہ احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں زیر التواء درخواستوں کی وجہ سے پاکستان میں تھری جی متعارف کرانے کا عمل تاخیر کا شکار ہوا جس سے عوام اس ٹیکنالوجی کے فوائد سے اب تک محروم ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس تاخیر نے ملک میں ٹیلی کام کے شعبے میں ترقی اور سرمایہ کاری کو بھی متاثر کیا۔
ایک درخواست گزار کے وکیل علی رضا نے سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پی ٹی اے کے چیئرمین کا عہدہ گزشتہ آٹھ ماہ سے خالی ہے جبکہ دیگر وجوہات کے باعث لائسنس کے اجراء کا عمل گزشتہ چار سالوں سے التوا کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے حکم کے بعد حکومت کے پاس اب تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔
’’ہمارے خطے میں آپ دبئی اٹھا لیجیئے، بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا اٹھا لیجیئے وہاں تھری جی اور فور جی سب آچکا ہے مگر ہم ابھی بھی تو جی پر بیٹھے ہیں۔ ہم اتنے پیچھے ہیں کہ اگر اب نا ہوا تو اسکا کمرشل و فائننشل نقصان اگلے دو، تین سال میں اربوں ڈالر کا ہو گا۔‘‘
سرکاری حکام کے اندازے کے مطابق تھری جی کی لائسنس کے فروخت سے پاکستان کو تقریباً تین ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رقم ملک کی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر اہمیت رکھتی ہے۔
نواز شریف نے رواں مالی سال کے دوران اسٹیٹ بنک سے تقریباً 600 ارب روپے قرضے کی مد میں حاصل کیے جو کہ ملکی تاریخ میں اتنے کم عرصے میں مرکزی بنک سے سب سے زیادہ قرضے کی رقم ہے۔
بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے موجودہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے بھی 7.3 ارب ڈالر کے قرضے کی خواہاں ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں حکومت کی طرف سے مختلف نوعیت کی پابندیاں سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا سبب بن سکتی ہیں جس سے اس نیلامی سے متوقع رقم حاصل نہیں ہو سکے گی۔
اس بارے میں علی رضا کا کہنا تھا کہ متعلقہ وزارت اور پی ٹی اے کی جانب سے ’’غیر سنجیدہ‘‘ رویے کی وجہ سے ایسی مشکلات کا سامنا ہے۔
’’وہ صرف یہ کر رہے ہیں کہ جہاں سے شور اٹھا یا زور پڑا وہ وہی کام کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں بعد میں دیکھا جائے گا۔ اب تو یہ سنجیدہ صورتحال بن گئی ہے کہ متعلقہ لوگ کہتے ہیں کہ بھائی آپ ہمیں ٹیکنالوجی تو لگا دیں گے تو کیا آپ ہمیں اس تک رسائی بھی دیں گے۔‘‘
واضح رہے کہ اسلام مخالف فلم کے کچھ حصوں کے نشر کرنے پر پاکستان نے گزشتہ سال معروف ویب سائٹ یو ٹیوب پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ حال ہی میں پی ٹی اے نے موبائل فون کمپنیوں کو ایک بار پھر خط کے ذریعے رات گئے سستی فون کالز کرنے کے لیے متعارف کرائے گئے خصوصی پیکجز کو بند کرنے کی بھی ہدایت کی۔
پی ٹی اے کا موقف ہے کہ ان پیکجز سے ’’منفی سماجی‘‘ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
علی رضا کا کہنا تھا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے پی ٹی اے کو ’’آزاد اور با اختیار‘‘ ادارہ بنایا جائے۔
اس سلسلے میں عدالت نے کہا کہ 10 روز میں ٹیلی مواصلات یا ٹیلی کام کے شعبے کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ کے سربراہ کی تقرری بھی کی جائے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظٰمی کے تین رکنی بنچ نے پیر کو مفاد عامہ سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہ احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں زیر التواء درخواستوں کی وجہ سے پاکستان میں تھری جی متعارف کرانے کا عمل تاخیر کا شکار ہوا جس سے عوام اس ٹیکنالوجی کے فوائد سے اب تک محروم ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس تاخیر نے ملک میں ٹیلی کام کے شعبے میں ترقی اور سرمایہ کاری کو بھی متاثر کیا۔
ایک درخواست گزار کے وکیل علی رضا نے سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پی ٹی اے کے چیئرمین کا عہدہ گزشتہ آٹھ ماہ سے خالی ہے جبکہ دیگر وجوہات کے باعث لائسنس کے اجراء کا عمل گزشتہ چار سالوں سے التوا کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے حکم کے بعد حکومت کے پاس اب تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔
’’ہمارے خطے میں آپ دبئی اٹھا لیجیئے، بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا اٹھا لیجیئے وہاں تھری جی اور فور جی سب آچکا ہے مگر ہم ابھی بھی تو جی پر بیٹھے ہیں۔ ہم اتنے پیچھے ہیں کہ اگر اب نا ہوا تو اسکا کمرشل و فائننشل نقصان اگلے دو، تین سال میں اربوں ڈالر کا ہو گا۔‘‘
سرکاری حکام کے اندازے کے مطابق تھری جی کی لائسنس کے فروخت سے پاکستان کو تقریباً تین ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رقم ملک کی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر اہمیت رکھتی ہے۔
نواز شریف نے رواں مالی سال کے دوران اسٹیٹ بنک سے تقریباً 600 ارب روپے قرضے کی مد میں حاصل کیے جو کہ ملکی تاریخ میں اتنے کم عرصے میں مرکزی بنک سے سب سے زیادہ قرضے کی رقم ہے۔
بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے موجودہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے بھی 7.3 ارب ڈالر کے قرضے کی خواہاں ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں حکومت کی طرف سے مختلف نوعیت کی پابندیاں سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا سبب بن سکتی ہیں جس سے اس نیلامی سے متوقع رقم حاصل نہیں ہو سکے گی۔
اس بارے میں علی رضا کا کہنا تھا کہ متعلقہ وزارت اور پی ٹی اے کی جانب سے ’’غیر سنجیدہ‘‘ رویے کی وجہ سے ایسی مشکلات کا سامنا ہے۔
’’وہ صرف یہ کر رہے ہیں کہ جہاں سے شور اٹھا یا زور پڑا وہ وہی کام کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں بعد میں دیکھا جائے گا۔ اب تو یہ سنجیدہ صورتحال بن گئی ہے کہ متعلقہ لوگ کہتے ہیں کہ بھائی آپ ہمیں ٹیکنالوجی تو لگا دیں گے تو کیا آپ ہمیں اس تک رسائی بھی دیں گے۔‘‘
واضح رہے کہ اسلام مخالف فلم کے کچھ حصوں کے نشر کرنے پر پاکستان نے گزشتہ سال معروف ویب سائٹ یو ٹیوب پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ حال ہی میں پی ٹی اے نے موبائل فون کمپنیوں کو ایک بار پھر خط کے ذریعے رات گئے سستی فون کالز کرنے کے لیے متعارف کرائے گئے خصوصی پیکجز کو بند کرنے کی بھی ہدایت کی۔
پی ٹی اے کا موقف ہے کہ ان پیکجز سے ’’منفی سماجی‘‘ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
علی رضا کا کہنا تھا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے پی ٹی اے کو ’’آزاد اور با اختیار‘‘ ادارہ بنایا جائے۔