کرونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا بھر میں آئندہ دسمبر تک 11 کروڑ 60 لاکھ بچوں کی پیدائش کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، اس میں سے 50 لاکھ بچے پاکستان میں پیدا ہونے کا امکان ہے۔
یونیسیف کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے 40 ہفتوں کے دوران دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں بچوں کی پیدائش کا امکان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا کی عالمگیر وبا میں 11 مارچ اور 16 دسمبر کے درمیان دنیا بھر میں 116 ملین یعنی 11 کروڑ 60 لاکھ بچے پیدا ہوں گے، جن میں سے تقریباً ایک چوتھائی 2 کروڑ 90 لاکھ بچے جنوبی ایشیا میں پیدا ہوں گے۔
یونیسیف کی رپورٹ میں پاکستان میں ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مارچ سے دسمبر تک کے عرصے میں پاکستان میں 5 ملین یعنی 50 لاکھ بچوں کی پیدائش کا امکان ہے۔
اس وبا کے دوران بھارت میں بھی دو کروڑ بچے پیدا ہوں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خطے میں سب سے زیادہ شرح پیدائش پاکستان اور بنگلادیش کی ہو گی۔ بنگلا دیش میں اس دوران 24 لاکھ اور افغانستان میں 10 لاکھ بچے پیدا ہوں گے۔
ان 9 ماہ میں چین میں ایک کروڑ 35 لاکھ، نائجیریا میں 60 لاکھ اور انڈونیشیا میں 40 لاکھ بچوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن جان بچانے والی صحت کی سروسز میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے، جس سے لاکھوں حاملہ خواتین اور ان کے بچے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
کیا پاکستان کا نظامِ صحت اس کے لیے تیار ہے؟
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 69 فیصد خواتین کے ہاں تربیت یافتہ ڈاکٹرز یا پیرامیڈیکل سٹاف کی مدد سے بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ جب کہ 66 فیصد خواتین گھر کی بجائے کسی اسپتال یا طبی مرکز میں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔
اس بارے میں گائناکالوجسٹ اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز سے منسلک ڈاکٹر صائمہ زبیر کہتی ہیں کہ یونیسیف کی طرف سے جو اعداو و شمار دیے گئے ہیں ان میں کچھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ پاکستان میں پیدائش کی شرح کے عین مطابق ہے جس کے مطابق رواں سال کے اختتام تک پاکستان میں 50 لاکھ بچے پیدا ہوں گے۔
سوچنے کی بات صرف اتنی ہے کہ کرونا کی صورت حال میں ڈاکٹرز خود کو کیسے محفوظ رکھ سکیں تاکہ وہ اپنے مریضوں کی خدمت کر سکیں۔ اس وقت کرونا کے کیسز کی وجہ سے اسلام آباد کے پمز اسپتال اور پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں گائنی وارڈز بند ہیں۔ بعض پرائیویٹ اسپتال بھی کیسز لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ ان حالات میں زچگی کے مراحل سے گزرنے والی خواتین کے لیے ڈاکٹرز کی کمی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر صائمہ کا کہنا تھا کہ کرونا کے باعث ہمارے صحت کے شعبہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں کہ کرونا کے باعث لوگوں کے گھروں میں قیام کی وجہ سے شرح پیدائش میں اضافہ ہوا ہے۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ کرونا لاک ڈاؤن سے جان بچانے والے صحت کے اداروں میں ایمرجینسی کی وجہ سے ماں اور بچے کی زندگیوں کو خطرات سے لاحق ہو سکتے ہیں۔
یونیسیف نے تمام حکومتووں سے اپیل کی ہے کہ کرونا کے حوالے سے حاملہ خواتین کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ انہیں بر وقت صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ جنوبی ایشیا میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح پہلے ہی اچھی نہیں ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق بیمار نوزائیدہ بچوں کو طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں ان کی ہلاکت کا خطرہ زیادہ ہے۔ نئے خاندانوں میں ماؤں کی صحت اور تندرستی کو یقینی بنانے، دودھ پلانا شروع کرنے میں مدد، اور اپنے بچوں کو صحت مند رکھنے کے لیے دواؤں، ویکسین اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ بچے ایسی بیماریوں کے ساتھ جنم لیتے ہیں کہ انھیں فوراً انکیوبیٹر یا انتہائی طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں دنیا بھر کا ہیلتھ نظام کرونا کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔
ڈاکٹر صائمہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں بہت سی خواتین گھروں میں دائیوں کی مدد سے، چھوٹے طبی مراکز میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مدد سے اور اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور تربیت یافتہ عملے کی مدد سے بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اور کسی پیچیدگی کی صورت میں انہیں گھروں پر یا لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مدد حاصل ہو سکتی ہے۔