رجسٹرار نے بتایا کہ بچوں کے حوالے سے تمام قانونی امور اور مسائل چائلڈ پروٹیکشن کورٹ ہی میں سنے جائیں گے، جب کہ مستقبل میں ضلعی سطح پر بچوں کے حقوق کے تحفظ کی عدالتیں قائم کرنے کے سلسلے میں صوبائی حکومت کو مزید 34 ججوں کی تعیناتی کے لئے سمری بھیج دی گئی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ہفتے کے روز بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے بچوں کی پہلی عدالت کے قیام کا افتتاح کیا۔
یہ عدالت پشاور کے جوڈیشل کمپلیکس ہی میں قائم کی گئی ہے۔ افتتاحی تقریب میں وکلا کے علاوہ انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم کارکنوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ذرائع ابلاع کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرار وجیہہ الدین نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن ویلفئیر ایکٹ 2010ء اور بچوں کے عدالتی حقوق ایکٹ 2018ء کے تحت پشاور میں ملک کا پہلا چائلڈ کورٹ قائم کیا گیا ہے جو تجرباتی بنیاد پر کام کرے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ مشتاق ملک چائلڈ پروٹیکشن جج کی حیثیت سے تعینات کر دئیے گئے ہیں اور پہلے مرحلے میں بچوں کے 62 کیس مذکورہ عدالت کو بھیج دیے گئے ہیں جب کہ دو مزید کیس آج ہی درج ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت جلد مردان اور ایبٹ آباد میں بھی چائلڈ پروٹیکشن کورٹ قائم کیا جائے گا۔ اُنہوں نے اس سلسلے میں صوبائی حکومت سے تعاون کی اپیل کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ ان عدالتوں سے بچوں کو فوری اور یقینی انصاف میسر آئے گا۔
وجہیہ الدین نے کہا کہ بچوں کے حوالے سے تمام قانونی امور اور مسائل چائلڈ پروٹیکشن کورٹ ہی میں سنے جائیں گے، جب کہ مستقبل میں ضلعی سطح پر بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے عدالتیں قائم کرنے کے سلسلے میں صوبائی حکومت کو مزید 34 ججز کی تعیناتی کے لئے سمری بھیج دی گئی ہے۔ جوں ہی اس حوالے سے مثبت جواب آئے گا تو یہ عمل مزید تیز ہو جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں بھی عدالتی نظام قائم ہو چکا ہے اور وہاں پر بہت جلد بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے الگ عدالتی نظام شروع کر دیا جائے گا۔
بچوں کے حقوق کے لئے سرگرم رکن عمران ٹکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے انتہائی اہم قدم اُٹھایا ہے جس سے جیلوں میں قید بچے اور اُن عام عدالتوں میں جاری کیسز جو کہ بچوں کے حقوق کے عالمی قوانین کے خلاف تھے ان عدالتوں میں منتقل ہونے کے بعد فوری اور آسان انصاف میسر ہوگا۔
اُنہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں بچوں کے لگ بھگ ایک ہزار کیسز عدالتوں میں موجود ہیں، جو مقدمات کی بہت بڑی تعداد ہے۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ارشد جاوید نے کہا ہےکہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی عدالت قائم کی گئی ہے جو انتہائی اہم اقدام ہے، کیونکہ جیلوں میں بچوں کے تعداد کم ہو جائے گی اور اُن کے مقدمات کے فیصلے جلد از جلد نمٹائے جائیں گے۔
افتتاحی تقریب میں صوبائی حکومت اور نجی رفاعی اداروں کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں میں زیر تعلیم بچوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات قدرے زیادہ رونما ہوتے ہیں، جس کی وجوہات، ماہرین کے مطابق، مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اور پسماندگی کے رویے ہیں۔