دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مسلمان جمعرات کو عیدالفطر منا رہے ہیں، لیکن عید کے اعلان پر بعض حلقوں کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
ماضی میں عید کا اعلان سرکاری و غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیوں کے درمیان ایک معمہ رہا ہے، جس کے باعث ملک میں ایک ہی عید ایک ایک دن کے وقفے سے منائی جاتی رہی ہیں۔
اس مرتبہ سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی عبدالخیر آزاد نے بدھ کی شب لگ بھگ ساڑھے گیارہ بجے عیدالفطر کا اعلان کیا جسے بعض مذہبی و سیاسی حلقوں کی جانب سے سیاسی فیصلے کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن کی ویڈیو میں اختلافی گفتگو کے بعد یہ معاملہ مزید متنازع ہو گیا ہے۔
سرکاری رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے عید الفطر کے باقاعدہ اعلان سے قبل سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں کمیٹی کے ایک رکن کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ عید کا فیصلہ قومی یکجہتی اور وحدت کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے اور چاند دیکھنے والی گواہیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
رویت ہلال کمیٹی کے سابق سربراہ مفتی منیب الرحمن نے حکومت کی طرف سے موجودہ عید کے حوالے سے پیدا کردہ صورتِ حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
علمائے اہلسنت کے کراچی میں منعقدہ ہنگامی اجلاس کے بعد مفتی منیب الرحمان نے حکومت کے عید منانے کے اعلان پر عید کرنے کا فیصلہ تو سنایا لیکن عوام سے عید کے بعد روزے کی قضا کرنے کی تاکید بھی کر دی ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ چاند کا آج نظر آنا ممکن ہی نہیں تھا۔ جن حضرات نے عید سعودی عرب کے ساتھ منانی ہے یہ ان کا آپشن ہے۔ ان کے بقول جھوٹ بول کر ماہ مقدس کا اختتام کرنا کہاں کی عقل مندی ہو گی۔
یاد رہے کہ چاند کی رویت کے مسئلے کے حل کے لیے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے وزارتِ سائنس کا تیار کردہ قمری کیلنڈر بھی جاری کیا تھا جس کے مطابق عید جمعے کو ہونا تھی۔
رویت ہلال کمیٹی کے سابق رکن مولانا اجلال حیدر کہتے ہیں کہ سیاسی و مذہبی مفادات کے باعث چاند کی رویت کا معاملہ ہر بار ایک معمہ بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بقول ان کے کمیٹی نے کمزور شہادتوں کا سہارا لیتے ہوئے فیصلہ کیا جو کہ بلوچستان کے سرحدی علاقے اور پشاور کی مسجد قاسم علی خان سے موصول ہوئیں۔
پاکستان میں روایتی طور پر سعودی عرب کے ایک روز بعد عید منائی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں حکام نے چاند نظر نہ آنے کے بعد رمضان کے 30 روزوں کی تکمیل پر جمعرات کو یکم شوال قرار دے کر عید الفطر منانے کا اعلان کیا تھا۔
پشاور کی مسجد قاسم علی خان میں غیر سرکاری رویتِ ہلال کمیٹی کے اجلاس کے بعد مفتی پوپلزئی نے حکومتی فیصلے سے قبل ہی جمعرات کو عید الفطر منانے کا اعلان کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سرفراز بگٹی اور سینٹر کہدہ بابر نے بھی مقامی معززین کی جانب سے ڈیرھ بگٹی، تربت اور دشت کے علاقوں میں چاند کی شہادت سے متعلق ٹوئٹس کی۔
افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے زیادہ تر علاقوں میں تو عید بدھ کو ہی منا لی گئی تھی۔ رکن اسمبلی محسن داوڑ نے ٹوئٹ میں مقامی افراد کی جانب سے چاند دیکھنے اور سرکاری سطح پر عید منانے سے ایک روز قبل ہی عید کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
شمالی وزیرستان میں حکومتی اعلان سے قبل عید الفطر کرنے میر علی پولیس تھانے میں مولوی رفیع الدین سمیت آٹھ افراد کے خلاف 'احترام رمضان قانون' کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان میں عید کی رویت پر تنازع ہوا ہے بلکہ ملک میں کئی مرتبہ عید کے چاند پر تنازع دیکھا گیا ہے اور ملک میں ایک سے زیادہ عیدیں بھی منائی جا چکی ہیں۔
عیدالفطر کا اعلان اور سوشل میڈیا پر ردِ عمل
عید کے چاند کے تاخیر سے اعلان پر سوشل میڈیا صارفین نے طنزیہ و مزاحیہ پوسٹ بھی کیں اور لوگوں کو عید کی مبارک باد دی۔
وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایک زمانے میں ایوب خان کی تصویریں ٹرکوں کے پیچھے لگی ہوتی تھیں اور لکھا ہوتا تھا کہ ''تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد''، کل کے بعد اب کہیں یہ بات مفتی منیب کی تصویر کے ساتھ نہ نظر آنا شروع ہو جائے۔
پاکستانی ٹی وی اینکر پرسن اقرار الحسن نے بھی مفتی منیب کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔
اسی طرح رات تاخیر سے چاند کے اعلان پر صحافی وسیم بادامی نے بھی ٹوئٹ کیا کہ ''اچانک'' عید مبارک۔