پاکستان کے ادارہ شماریات نے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میئرمنٹ (پی ایس ایل ایم) سروے برائے سال 20-2019 کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق 16 فی صد پاکستانی خاندان غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں پرائمری تعلیم کی سہولیات 67 فی صد،سیکنڈری تعلیم 47 فی صد اور اپر سیکنڈری تعلیم تک 23 فی صد لوگوں کی رسائی ہے۔ پانچ سے 16 برس تک کے 32 فی صد بچے آج بھی سکول سے باہر ہیں، سندھ واحد صوبہ ہے جہاں شرح خواندگی کم ہو رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ صحت کے نظام اور دیگر عوامل کے ساتھ منسلک ہے جس کی وجہ سے تمام شعبوں میں بہتری آنا ضروری ہے، تعلیم کے شعبہ میں پرائمری تعلیم کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور بیشتر فنڈز اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان شماریات بیورو نے ملک کے 6500 بلاکس میں ایک لاکھ 95 ہزار خاندانوں پر مشتمل یہ سروے کیا ہے جس کا مقصد قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کے لیے شواہد پر مبنی پالیسی سازی کے لیے اعدادوشمار فراہم کرنا ہے۔
اس سروے میں صحت، تعلیم، رہائش، صاف پانی کی فراہمی، انٹرنیٹ کے استعمال، خوراک کے عدم تحفظ کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
غذائی عدم تحفظ
غذائی تحفظ کے بارے میں سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 84 فی صد گھرانوں کو محفوظ خوراک حاصل ہے۔ 16 فی صد گھرانوں میں خوراک کے عدم تحفظ کا بتایا گیا جب کہ دو فی صد گھرانوں میں خوراک کا شدید عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں جن علاقوں میں حالت خراب ہے ان میں بلوچستان میں شدید اور درمیانے درجے کا غذائی عدم تحفظ سب سے زیادہ 29.84 فی صد، اس کے بعد سندھ میں 18.45 فی صد، پنجاب میں 15.16 فی صد اور خیبرپختونخوا میں 12.75 فی صد ہے۔
بلوچستان میں درمیانے سے شدید درجے کا غذائی عدم تحفظ بارکھان میں 48.8 فی صد اور سب سے کم 4.59 فی صد گوادر میں ریکارڈ کیا گیا۔ سندھ میں سب سے زیادہ 34.04 فی صد کشمور اور سب سے کم 7.66 فی صد خیر پور میں ریکارڈ کیا گیا۔
پنجاب میں شدید یا درمیانے درجے کا غذائی عدم تحفظ 28.81 فی صد قصور اور سب سے کم 4.18 فی صد اوکاڑہ میں ریکارڈ کیا گیا جب کہ خیبرپختونخوا میں غذائی تحفظ کی بلند ترین شرح 32.43 فی صد ٹانک میں اور سب سے کم 3.94 فی صد شانگلہ میں موجود ہے۔
غذائی تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والے ماہر غذائیت ڈاکٹر اسد علی کہتے ہیں کہ غذائی تحفظ کا تعلق غذائی قلت سے نہیں ہے بلکہ عام زندگی میں مختلف پہلو اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر اسد علی کا کہنا تھا کہ غذائی کمی یا غذائی عدم تحفظ بہت سی بیماریوں کا موجب بنتا ہے لیکن اس کی وجہ صرف غذائی قلت نہیں ہے۔ اس کی وجوہات میں ضروریات زندگی کے دیگر شعبے بھی شامل ہیں، جیسے پینے کے صاف پینے تک رسائی ایک بہت اہم پہلو ہے۔
شرح خواندگی
سروے رپورٹ میں تعلیم کے شعبہ کے بارے میں بتایا گیا کہ پانچ سے سولہ برس کی عمر کے اسکول جانے کی عمر کے 32 فی صد بچے ابھی بھی اسکولوں سے باہر ہیں۔
اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں میں سے سب سے زیادہ 47 فی صد بلوچستان میں اور سب سے کم پنجاب میں 26 فی صد ہیں۔
جن شہروں میں یہ شرح سب سے کم نظر آرہی ہے ان میں پنجاب میں راجن پور، سندھ میں ٹھٹھہ، خیبرپختونخوا میں ضلع کوہستان اور باجوڑ جب کہ بلوچستان میں قلعہ عبد اللہ اور زیارت کے علاقے تعلیم کے شعبہ میں بری طرح متاثر ہیں۔
ان علاقوں میں تعلیم کی سہولیات ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ صوبوں میں پرائمری، مڈل اور میٹرک کی سطح پر انرولمنٹس یا تو جمود کا شکار ہے یا پھر بچوں کے اسکول میں داخلہ لینے کے عمل میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کہتے ہیں کہ ریاست کا بنیادی کام یونیورسٹیوں کی اعلیٰ تعلیم نہیں بلکہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم ہے جو لگاتار نظرانداز ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے بیشتر فنڈز اعلیٰ تعلیم یا یونیورسٹیوں کی ریسرچ کے لیے خرچ کر دیے جاتے ہیں لیکن اگر گزشتہ کئی برسوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو اعلیٰ تعلیم میں پی ایچ ڈیز یا ریسرچ کی وجہ سے بہت کم ایجادات ہوئیں۔
اُن کے بقول پرائمری اور بنیادی تعلیم کا شعبہ کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اسکولز میں انرولمنٹ میں اضافہ نہیں ہو رہا اور ناخواندہ مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کا کہنا تھا کہ اگر صرف 10 برس کے لیے ملک میں بنیادی اور پرائمری تعلیم پر توجہ دے کر اسے 100 فی صد کر دیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
بارہ فی صد گھرانوں میں کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 12 فی صد گھرانوں کے پاس کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ ہیں، 93 فی صد کے پاس اپنے موبائل فون ہیں اور 33 فی صد شہری علاقوں میں عوام کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔
مجموعی طور پر 10 برس یا اس سے اوپر کی عمر کے 45 فی صد افراد اپنے ذاتی موبائل فون اور 19 فی صد انٹرنیٹ سہولیات کا استعمال کرتے ہیں۔
ملک میں 65 فی صد مردوں کے پاس موبائل موجود ہیں جب کہ 25 فی صد خواتین ہیں جو اپنا ذاتی موبائل فون رکھتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 96 فی صد گھرانے روشنی کے لیے بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ 91 فی صد کمپنیوں سے فراہم کردہ بجلی اور 5 فی صد شمسی پینل سے پیدا ہونے والی بجلی استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 48 فی صد خاندان گیس کو کھانا پکانے کے لیے اہم ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔