'معیشت کو آئی سی یو سے نکالنا کافی نہیں، نظام ٹھیک کرنا ہے'

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ 23 جنوری 2019

پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں رواں مالی سال کا تیسرا مالیاتی بل پیش کر دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کا مقصد کاروباری سرگرمیوں میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔

اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسد عمر نے منی بجٹ پیش کیا تو ایوان میں موجود اپوزیشن اراکین نے خوب شور شرابا کیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ بجٹ نہیں ہے بلکہ مختلف شعبوں میں موجود کچھ پیچیدگیوں کو دور کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ جب تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک کا ہر شعبہ خسارے میں تھا لیکن گذشتہ چند ماہ میں حکومتی اقدامات سے برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور درآمدات سمیت بجٹ خسارے میں کمی ہوئی ہے۔

اپوزیشن کے ’گو نیازی گو‘ کے نعروں کے شور میں مالی سال 2018 -2019 کے لیے تیسرے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اب ٹیکس نیٹ میں آنے والوں یا فائلر کو مختلف مد میں ٹیکس رعایت دی گئی ہے۔

مہنگے سمارت فونز پر ڈیوٹی کی شرح بڑھانے اور 1800 سی سی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔

حکومت کی حکمتِ عملی

وزیر خزانہ نے کہا کہ چار اہم نکات پر ہمیں اپنی معشت کو مضبوط خطوط پر استوار کرنا ہے۔ انھوں نے کہا ملک میں آمدن اور اخراجات میں توازن لانے کے لیے آمدن بڑھانی اور گرتی ہوئی برآمدات کو بڑھانا ہے۔

1 ۔چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں، آمدنی اخراجات میں توازن

2 ۔برآمدات میں اضافہ

3 ۔زراعت اور صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا

4 ۔قومی بچت کو فروغ دے کر سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا

وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ زرعی شعبے، کم آمدنی کے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو مکان بنانے کے لیے قرضے اور چھوٹی صنعتوں کو قرضے دینے والے بینکوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گی۔

وزیر خزنہ نے اسمبلی میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گاڑی کی خریداری کے لیے فائلر ہونے کی شرط کو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ اب نان فائلر 1300 سی سی تک کی گاڑی خرید سکتے ہیں۔

حکومت نے بجٹ میں ٹیکس فائلر کے لیے بینکوں سے نقد رقم نکلوانے پر عائد ودہولڈنگ ٹیکس کو ختم کر دیا ہے۔

بجٹ میں اسمارٹ فون سمیت پانچ ہزار سے زائد پرتعیش مصنوعات پر ڈیوٹیز عائد کرنے اور بڑی گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے گی۔

سال بھر میں تیسرا بجٹ کیوں؟

اسمبلی میں پیش کیا گیا یہ تحریکِ انصاف کی حکومت کا دوسرا جبکہ رواں مالی سال کے دوران تیسرا بجٹ ہے۔

اس سے پہلے سابق حکومت مسلم لیگ نواز نے مئی میں آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ پیش کیا تھا۔ جولائی میں انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی اور ستمبر 2018 میں وزیر خزانہ اسد عمر نے وفاقی بجٹ پیش کیا، لیکن کچھ ماہ بعد جنوری میں وزیر خزانہ نے دوبارہ منی بجٹ اسمبلی میں پیش کیا۔ اس طرح یکم جولائی سے شروع ہونے والی مالی سال کا یہ تیسرا بجٹ ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس اقتصادی پیکج کے ذریعے کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی جبکہ حزب اختلاف حکومت کی اقتصادی ٹیم کی اہلیت کو چیلنج کر رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کے ذریعے پہلے سے ہی مہنگائی کی شکار عوام پر مزید بوجھ بڑھے گا۔

بجٹ سے عام آدمی پر فرق

حالیہ بجٹ میں بظاہر ایسے اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں جس سے عام آدمی کی روزمرہ قوتِ خرید پر اثر پڑے، لیکن اس بجٹ میں کیے گئے اقدامات سے اسٹاک مارکیٹ، ہاوسنگ، زراعت اور صنعتی شعبے کو فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ پرتعیش مصنوعات کی برآمدات پر بھی ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔