پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل سپریم کورٹ کے لیے جج کی تعیناتی کے معاملے میں مبینہ طور پر جلد بازی کرنے پر سراپا احتجاج ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر کی اعلیٰ عدالت میں تقرری پر غور کے لیے بدھ کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کیا تھا۔ اس اجلاس سے قبل ہی پاکستان بار کونسل نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسی روز ملک بھر میں یومِ سیاہ کی کال دی۔
بار کونسل نے بدھ کو ملک بھر میں یوم سیاہ منایا اور عدالتوں میں جاری کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا۔ اس دوران وکلا کی بڑی تعداد کئی شہروں میں عدالتوں میں پیش نہیں ہوئی، انہوں نے احتجاجی اجلاس کیے اور اپنے مطالبات کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
پاکستان بار کونسل کو اعتراض اس بات پر ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک جونئیر جج کو اسی عدالت کے چار دیگر سینئر ججز پر فوقیت دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں کیوں تعینات کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں بار کونسل کے بقول جوڈیشل کمیشن کا اجلاس انتہائی جلد بازی میں بلایا گیا ہے۔
اس سے قبل 13 جولائی کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کے معاملے پر غور کو مؤخر کر دیا گیا تھا۔
پاکستان بار کونسل نے اعتراض اٹھایا ہے کہ جونیئر جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی صورت میں سینیارٹی پر ترقی دیے جانے کے ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے جو سپریم کورٹ نے اپنے کئی تاریخی فیصلوں میں طے کیے تھے۔
SEE ALSO: پاکستان میں ججز کی تقرری کے طریقۂ کار میں تبدیلی کا مطالبہ کیوں؟واضح رہے کہ ماضی قریب میں بھی سپریم کورٹ میں کی گئی بعض ججز کی تقرریوں میں اس اصول کو نظر انداز کیا گیا تھا جس پر اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
جج کی تقرری کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی چیف جسٹس گلزار احمد کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ انہیں جسٹس محمد علی مظہر کی قابلیت اور ان کی نیک نامی پر کوئی شبہ نہیں، جو سینیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہیں، لیکن ان کی سپریم کورٹ میں تعیناتی سے سندھ ہائی کورٹ میں دیگر چار سینئر ججز کی حق تلفی ہو گی۔
ہائی کوٹ بار ایسوسی ایشن کے خط میں سپریم کورٹ کے اپنے ہی دیے گئے ملک اسد علی کیس میں فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے سینیارٹی کا اصول طے کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اگر ججز کو تعینات کرنے میں سینیارٹی کے اصول کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا تو پھر اس کا متبادل کیا ہے؟
پاکستان بار کونسل سے وابستہ وکلا کا کہنا ہے کہ اگر میرٹ اور قابلیت ہی اس بارے میں واحد معیار ہے تو پھر سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے ہائی کورٹ کے تمام ججز کی اہلیت کا موازنہ کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے کمیشن کو ایک طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ان امیدواروں کی صلاحیتوں کو جانچے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ججز کی تعیناتیوں سے متعلق شفاف اور واضح معیار مقرر کرنے تک سینیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرنا خطرناک ہوگا۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں بار کونسل کے نمائندے اختر حسین ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ سینئر جج کو سپریم کورٹ میں تعیناتی پر برتری دی جائے گی لیکن اس کی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ سپریم کورٹ میں تعیناتی کے وقت سینئر ججز کو کیوں سُپرسیڈ کر کے ایک جونیئر کو ترقی دی جاتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر کسی جونیئر جج کو سینئر کے مقابلے میں ترقی دی بھی جا رہی ہے تو اس کی تحریری وجوہات دی جانی چاہیے۔
'آئین میں سینیارٹی اصول کہیں واضح نہیں'
سپریم کورٹ کے وکیل چوہدری اظہر ایڈووکیٹ کے خیال میں اس بارے میں اعلیٰ عدلیہ کا کوئی فیصلہ نہیں کہ صرف ہائی کورٹ کا سینئر جج ہی سپریم کورٹ کا جج بن سکتا ہے۔
ان کے بقول ملک اسد علی کیس میں جو اصول طے ہوا ہے وہ صرف چیف جسٹس پاکستان اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کے لیے ہے نہ کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کے لیے۔
ایڈووکیٹ چوہدری اظہر کہتے ہیں آئین کے آرٹیکل 176 میں صرف یہی درج ہے کہ سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے امیدوار کو پانچ سال ہائی کورٹ کا جج رہنا ہو یا کم از کم 15 سال ہائی کورٹ میں وکالت کا تجربہ ہونا چاہیے۔ جج کی تعیناتی کا صرف یہی اصول ہے تو یہ کسی طرح سے کسی قانون یا آئین کی نفی نہیں۔
ان کے بقول سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کا استحقاق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے کسے تعینات کرتا ہے۔
چوہدری اظہر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں سپریم کورٹ کے جج کے لیے سینیارٹی کا اصول ہونا چاہیے لیکن ہائی کورٹ کے جج کی تعیناتی سے متعلق آئین میں تبدیلی ضروری ہے۔
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے اس معاملے پر وفاقی وزیر فواد چوہدری کے اُس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جس میں انہوں نے سینیارٹی کے اصول کے طور پر ججز کی تقرری کو بیوقوفانہ فعل قرار دیا تھا۔
فواد چوہدری نے کہا تھا "سینیارٹی کیا ہوتی ہے۔ ججز کی تعنیاتی ان کی قابلیت کی بنیاد پر کی جانی چاہیے۔ اگر ایک جج قابل نہیں تو اسے صرف عمر کی وجہ سے عذاب بنا کر مسلط نہیں رکھا جاسکتا۔ اگر کوئی جج قابل ہے تو اسے اوپر جانا چاہیے اور قابل نہیں تو اسے آگے نہیں جانا چاہیے۔"
فواد چوہدری بھی قانون کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پارلیمان، چیف جسٹس پاکستان اور پاکستان بار کونسل سے درخواست کی کہ اب انہیں سینیارٹی کے اصول پر پرکھ کر ججز کو ترقی دینے کے رجحان کو ترک کر دینا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے ججز کے تقرر کا موجودہ طریقہ کار کیا ہے؟
پاکستان میں اس وقت 19ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 175-اے میں سپریم کورٹ کے ججز کے تقرر کا طریقہ کار دیا گیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ میں جج تعینات کرنے کے اختیارات سپریم کورٹ ہی کے پاس ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم ہے جس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج، ایک سابق چیف جسٹس جو دو سال کے لیے تعینات ہو گا، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد ایک سینئر وکیل شامل ہوتے ہیں۔
اسی طرح اس مقصد کے لیے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی الگ سے قائم کی گئی ہے جس میں چار اراکینِ سینیٹ اور چار ہی قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے چار کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعتوں جب کہ چار کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن جج کی قابلیت اور اس کی پیشہ وارانہ اہلیت دیکھ کر سفارشات مرتب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی نامزدگی موصول ہونے کے 14 روز کے اندر سادہ اکثریت سے ان ناموں کی منظوری دیتی ہے اور اگر اس دوران یہ فیصلہ نہ ہو سکے تو عدالتی کمیشن کا ہی فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے۔
اگر پارلیمانی کمیٹی کسی نام کو مسترد کرتی ہے تو تین چوتھائی ارکان کی حمایت کے ساتھ اس نام کو مسترد کرنے کی وجوہات کو بھی بیان کر کے سفارشات وزیرِ اعظم کو ارسال کی جاتی ہیں جس پر جوڈیشل کمیشن اس نام کے بجائے کوئی اور نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتا ہے۔
ججز کے وہ نام جو پارلیمانی کمیٹی منظور کر لیتی ہے۔ اسے بھی وزیرِ اعظم کو ارسال کیا جاتا ہے جو ان کی تعیناتی کے لیے صدرِ مملکت کو ایڈوائس بھیجنے کے پابند ہیں۔