کیا پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون کی راہ بھی ہموار ہو رہی ہے؟

  • شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
  • سول حکام کے رابطوں کے بعد بنگلہ دیشی فوج کے اعلٰی افسر نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔
  • بنگلہ دیش کے آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹننٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی ہے۔
  • بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی بھارت مخالف ہے اور بنگالی عوام میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر تعلقات استوار ہونے چاہئیں: لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی
  • بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کے ماحول میں بنگلہ دیش کا پاکستان کے قریب آنا ایک قدرتی عمل ہے: تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی

اسلام آباد -- پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ عرصے میں دو طرفہ تعلقات، تجارت کی بحالی اور ویزہ اجرا میں نرمی کے بعد دفاعی تعاون کے لیے اعلی روابط کا آغاز ہوا ہے۔

رواں ہفتے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بنگلہ دیش کے آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹننٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے فوج کے ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی ہے۔

سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈھاکہ اور اسلام آباد کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، سفارتی اور کاروباری سطح پر رابطے بڑھے ہیں۔

دوطرفہ تعلقات میں گرم جوشی کے اس ماحول میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آئندہ ماہ ڈھاکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا یہ پہلا دورۂ بنگلہ دیش ہو گا۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف عاصم منیر اور جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے ملاقات کے دوران خطے کے بدلتے سیکیورٹی معاملات پر مفصل بات چیت کی اور دونوں ممالک کے درمیان مزید فوجی تعاون کی راہیں نکالنے پر غور کیا گیا۔

آرمی چیف اور بنگلہ دیش کی فوج کے پرنسپل اسٹاف آفیسر نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مضبوط دفاعی تعاون کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان شراکت داری اور تعاون بیرونی اثرات سے بالاتر ہونی چاہیے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے جنوبی ایشیا اور خطے میں امن اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششوں کی اہمیت کا اعادہ کیا۔

ایک طرف بنگلہ دیش پاکستان کے قریب آ رہا ہے تو دوسری جانب اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔

رواں ہفتے ہی بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی کے پیشِ نظر ڈھاکہ میں بھارت کے ہائی کمشنر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کیا تھا۔

شیخ حسینہ نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے اور ڈھاکہ میں ملک کی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ نئی دہلی شیخ حسینہ کو ملک بدر کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے حوالے کر دے جس سے بھارت اب تک انکاری ہے۔

بنگلہ دیش میں کئی ہفتوں کے پرتشدد مظاہروں کے بعد گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں۔ آٹھ اگست 2024 کو نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی بہت گنجائش پائی جاتی ہے جو کہ خطے کے بدلتے حالات میں اسٹریٹجک تعلقات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔

'بنگلہ دیشی عوام چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں'

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی بھارت مخالف ہے اور بنگالی عوام میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر تعلقات استوار ہونے چاہئیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان نہ صرف عالمی سیاست، تجارت بلکہ عسکری تعاون کے بھی مواقع موجود ہیں اور بنگلہ دیش کی فوج کو پاکستان سے اچھے اور سستے ہتھیار اور فوجی ساز و سامان مہیا ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دونوں طرف یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ہم ایک نظریے پر آزاد ہوئے تھے اور اسی بنا پر بنگلہ دیش میں محمد علی جناح کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔

اُن کے بقول روابط اور میل جول سے ماضی کی غلط فہمیاں بھی دُور ہوں گی۔

'شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کو پاکستان ایک موقع پر دیکھ رہا ہے'

دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کے ماحول میں بنگلہ دیش کا پاکستان کے قریب آنا ایک قدرتی عمل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد اسلام آباد بھی نئی صورتِ حال کو ڈھاکہ کے ساتھ اعتماد سازی کے موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ عرصے میں ویزہ میں نرمی، تجارتی تعلقات میں اضافے کے بعد اب عسکری سطح پر روابط ہو رہے ہیں۔

SEE ALSO:

بنگلہ دیش کا 'بغاوت اعلامیہ' جاری کرنے کا فیصلہ؛ بھارت سے تعلقات مزید خراب ہونے کے خدشاتپاکستان اور بنگلہ دیش میں قربتیں: 'اسلام آباد مدِنظر رکھے کہ ڈھاکہ میں اس وقت عبوری حکومت ہے'بنگلہ دیش کا شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ، بھارت کے لیے سفارتی چیلنج

نعیم خالد لودھی کے بقول پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان یہ تعاون اسٹریٹجک تعلقات میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے کیوں کہ بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو تنگ کرتا رہتا ہے جس کا بہتر جواب مشترکہ طور پر دیا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان کی فوج مشرقِ وسطی کے ممالک، یورپ اور امریکہ کے ساتھ ملٹری ڈپلومیسی میں متحرک رہتی ہے اور بنگلہ دیش کے ساتھ حالیہ فوجی روابط بھی اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان سیاسی تعلقات کو استوار کرنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بنگلہ دیش کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں کس حد تک آزاد حیثیت اختیار کر سکتا ہے یہ ابھی دیکھنا ہو گا کیوں کہ دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی پر بیرونی دباؤ رہتا ہے۔

نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بھارت کی کوشش ہو گی کہ امریکہ کہ نئی انتظامیہ کو راغب کرے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے بڑھتے تعلقات کو روکا جائے۔

'بات چیت کے لیے بیرونی ممالک جی ایچ کیو ہی جاتے ہیں'

ہما بقائی نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے اسٹریٹجک تعلقات کی قدرتی صورت موجود ہے کیوں کہ دونوں ماضی میں ایک ملک رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی ہیجان پایا جاتا ہے اور جو بھی ملک سنجیدہ بات چیت اور معاملات میں تسلسل چاہتا ہے وہ جی ایچ کیو یعنی فوج کے ہیڈ کوارٹر ہی جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں سیاسی حکومتیں کمزور ہونے کے باعث پاکستان کی فوج نہ صرف خارجہ امور بلکہ اب تو معیشت میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے اور باہر سے آنے والوں کو اس بات کا ادراک ہے اسی لیے وہ فوج کی جانب ہی رجوع کرتے ہیں۔

ہما بقائی نے کہا کہ پاکستان میں یہ احساس ہمیشہ سے رہا ہے کہ 1971 میں بنگالی عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی اور بنگلہ دیش کو بھی احساس ہے کہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد بھارت کے زیرِ اثر چلا گیا۔

ان کے بقول بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں یہ اعتماد اور شراکت داری مستقبل میں بڑھے گی جو کہ نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطے کے لیے بھی مفید ہوگا۔

ہما بقائی نے کہا کہ بھارت کا مفاد اس وقت مغرب اور امریکہ کی طرف ہے جب کہ پاکستان خطے کی طرف دیکھ رہا ہے اور سارک کی بحالی اسلام آباد اور ڈھاکہ کے مفاد میں ہے۔

گزشتہ ماہ قاہرہ میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

اس سے قبل ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد شہباز شریف نے محمد یونس کو پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی بھی دعوت دی تھی۔