انسانی حقوق کی ایک تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن نے بولان میں پیش آنے والے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لسانی شناخت سے قطع نظر بلوچستان میں مقیم تمام افراد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں بدھ کو ہونے والے بم دھماکے میں ایک کم سن بچی ہلاک جب کہ خواتین سمیت 20 افراد زخمی ہوگئے۔
حکام نے بتایا کہ ضلع مستونگ کے ایک مصروف بازار میں یہ بم دھماکا اس وقت ہوا جب عید کی خریداری کے لیے خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔
حکام کے مطابق بارودی مواد ایک شاپنگ سنٹر کے باہر نصب کیا گیا تھا جس میں ٹائم ڈیوائس کے ذریعے دھماکا کیا گیا۔
دھماکے کے زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں تین خواتین زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
مستونگ کے اسسٹنٹ کمشنر شفقت انور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکے کے بعد ضلع میں سکیورٹی مزید سخت کی جارہی ہے۔
’’سول انتظامیہ نے پولیس کو واضح ہدایات دے رکھی تھیں کہ عید سے پہلے بازاروں کی سکیورٹی بڑھائی جائے لیکن یہ آج کا واقعہ رونما ہوا ہے تو ابھی پولیس اپنے مزید اہلکاروں کو تعینات کررہی ہے بازاروں میں بھی۔‘‘
بلوچستان میں حالیہ ہفتوں میں تشدد کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ امن و امان کا قیام اس کی ترجیحات میں شامل ہے اور وہ اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔
صوبائی وزیر ثنا اللہ زہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صوبے میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنایا جارہا ہے۔
’’ہماری خواہش ہے کہ ماضی میں جو واقعات ہوتے رہے ہیں وہ اب نہ ہوں اور اس کے لیے ہم کوششیں بھی کر رہے ہیں اور اس میں ہمیں کامیابی بھی ہوگی۔‘‘
ایک روز قبل بولان کے علاقے میں بلوچستان سے پنجاب جانے والے 13 مسافروں کو شدت پسندوں نے شناخت کے بعد اغوا کیا اور پھر قتل کرکے ان کی لاشیں پھینک کر فرار ہوگئے۔ صوبے میں ایک عرصے سے پاکستان کے دیگر علاقوں سے آکر آباد ہونے یا کام کاج کے لیے آنے والوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن نے بولان میں پیش آنے والے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لسانی شناخت سے قطع نظر بلوچستان میں مقیم تمام افراد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں تنظیم شد ت پشندوں پر بھی زور دیا کہ اپنے حقوق کی لڑائی کا دعویٰ کرنے والوں کو دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا تھا کہ حکام کو چاہیے کہ وہ بلوچستان میں امن عامہ اور ریاستی عملداری کی بحالی کے لیے سیاسی ذرائع استعمال کریں اور طاقت کے استعمال کو صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جائے۔
حکام نے بتایا کہ ضلع مستونگ کے ایک مصروف بازار میں یہ بم دھماکا اس وقت ہوا جب عید کی خریداری کے لیے خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔
حکام کے مطابق بارودی مواد ایک شاپنگ سنٹر کے باہر نصب کیا گیا تھا جس میں ٹائم ڈیوائس کے ذریعے دھماکا کیا گیا۔
دھماکے کے زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں تین خواتین زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
مستونگ کے اسسٹنٹ کمشنر شفقت انور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکے کے بعد ضلع میں سکیورٹی مزید سخت کی جارہی ہے۔
’’سول انتظامیہ نے پولیس کو واضح ہدایات دے رکھی تھیں کہ عید سے پہلے بازاروں کی سکیورٹی بڑھائی جائے لیکن یہ آج کا واقعہ رونما ہوا ہے تو ابھی پولیس اپنے مزید اہلکاروں کو تعینات کررہی ہے بازاروں میں بھی۔‘‘
بلوچستان میں حالیہ ہفتوں میں تشدد کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ امن و امان کا قیام اس کی ترجیحات میں شامل ہے اور وہ اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔
صوبائی وزیر ثنا اللہ زہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صوبے میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنایا جارہا ہے۔
’’ہماری خواہش ہے کہ ماضی میں جو واقعات ہوتے رہے ہیں وہ اب نہ ہوں اور اس کے لیے ہم کوششیں بھی کر رہے ہیں اور اس میں ہمیں کامیابی بھی ہوگی۔‘‘
ایک روز قبل بولان کے علاقے میں بلوچستان سے پنجاب جانے والے 13 مسافروں کو شدت پسندوں نے شناخت کے بعد اغوا کیا اور پھر قتل کرکے ان کی لاشیں پھینک کر فرار ہوگئے۔ صوبے میں ایک عرصے سے پاکستان کے دیگر علاقوں سے آکر آباد ہونے یا کام کاج کے لیے آنے والوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن نے بولان میں پیش آنے والے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لسانی شناخت سے قطع نظر بلوچستان میں مقیم تمام افراد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں تنظیم شد ت پشندوں پر بھی زور دیا کہ اپنے حقوق کی لڑائی کا دعویٰ کرنے والوں کو دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا تھا کہ حکام کو چاہیے کہ وہ بلوچستان میں امن عامہ اور ریاستی عملداری کی بحالی کے لیے سیاسی ذرائع استعمال کریں اور طاقت کے استعمال کو صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جائے۔