بلوچستان میں سیلاب کے متاثرین کی مشکلات

Your browser doesn’t support HTML5

بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی مشکلات

قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈٰی ایم اے) کے ڈائریکٹرعطا اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ افراد میں مکانات کی تقیسم کا سلسلہ کوٹہ سسٹم کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔

2010 میں جہاں ملک کے بڑے حصے زیر آب آئے وہیں جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی، بلوچستان میں سیلاب سے بہت سے لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے جنہیں اب تک دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔

ضلع جعفرآباد کے علاقے ڈیرہ اللہ یار میں بعض سیلاب متاثرین آج بھی خیموں میں رہ رہے ہیں اور مکانات کی تعمیر کے لیے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔

ضلع جعفرآباد میں آنے والے سیلاب سے امام بخش کا گھر بھی تباہ ہو گیا تھا۔ امام بخش جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کے پاس اب بھی رہنے کو گھر نہیں ہے۔ امام بخش کا الزام ہے کہ ترکی کی حکومت نے جن متاثرین کے لیے گھر بنائے ہیں معذور ہونے کے باوجود اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

"جب سیلاب آیا تو وہ قیامت صغریٰ کا عالم تھا۔ میرے والد سیلاب کی زد میں آکر ہلاک ہو گئے۔ ترک حکومت کی جانب سے جو ہاوسنگ اسکیم مل رہی ہیں اس سے ہم خوش تھے مگر ہمارا نام فہرست سے نکال کر معذوروں کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔"

قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈٰی ایم اے) کے ڈائریکٹرعطا اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ افراد میں مکانات کی تقیسم کا سلسلہ کوٹہ سسٹم کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔

"ترک حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مکانات کی تعداد 380 ہے مگر ان کے لیے ہزاروں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ معذور افراد کی جانب سے تین سو سے زائد درخواستیں جمع کرائی گئیں جن میں سے دس افراد کو ہی کوٹہ کے مطابق مکانات مل سکتے ہیں۔"

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2010 میں بلوچستان میں سیلاب سے تقریبا سات لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ 75 ہزار مکانات کو نقصان پہنچا۔ ان میں سے کچھ مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ باقی کو جزوی نقصان پہنچا۔ حکومت کی طرف سے مکانات کی تعمیر میں مدد نہ ملنے پر احتجاج کرنے والے افراد نے عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔