پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں نمایاں کمی کا خدشہ سامنے آ رہا ہے اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ رواں سال معاشی شرح نمو 6 کے مقابلے میں 3.9 فی صد رہے گی۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی بھی سست روی کا شکار رہے گی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں افراطِ زر کی شرح گزشتہ پانچ برس کی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ صرف ایک ماہ میں یہ شرح 8.21 فی صد سے بڑھ کر 9.41 فی صد تک پہنچ گئی جس سے ملک میں مزید مہنگائی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور افراط زر کی شرح بڑھنے سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر گھٹ رہی ہے۔
اس سلسلے میں حکومتی رہنماؤں کے بیانات بھی مہنگائی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں اور عوام کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کے زرعی شعبے میں افزائش کی شرح گر کر 3.6 فی صد ہونے کا امکان ہے۔ جبکہ بڑی صنعتوں کے شعبے میں 1.5 فی صد تنزلی کے بعد یہ شرح 6.6 فی صد ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
اس صورت حال پر ماہر معاشیات فرخ سلیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آثار اچھے نظر نہیں آ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث لوگوں کی قوت خرید پر بھی اثر پڑا ہے۔ اس صورت حال میں ملکی سرمایہ کاری بھی مختلف شعبوں میں کم ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان کہتے ہیں کہ اس وقت تمام شعبے متاثر ہو رہے ہیں اور زیادہ تر سرمایہ کاری ڈالر، بانڈز اور سونے کی خرید میں کی جا رہی ہے۔
مارکیٹ میں اس وقت ڈالر کی قیمت 141.50 روپے کے قریب ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے ہو جانے کے بعد اس کا ریٹ 150 روپے سے زائد ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ کرنسی ریٹ سے متعلق پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ ماضی میں جی ڈی پی کو مصنوعی طور پر زیادہ کر کے دکھایا جاتا رہا ہے۔
ملکی معاشی صورت حال کی وجہ سے عام آدمی شدید متاثر ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پیٹرول کی قیمت میں 6 روپے اضافے کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، جبکہ اشیائے خورد و نوش اور عام استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
عام شہریوں کا کہنا ہے کہ موجودہ ذرائع آمدنی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اب گھر چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
مشکل معاشی صورت حال اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی حکومت پر تنقید میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کا اصل امتحان نئے سال کا بجٹ ہو گا جسے متوقع طور پر اگلے مہینے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اگر نئے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف نہ ملا اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا تو عمران خان حکومت کے لیے سیاسی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔