پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل کا دورہ کیا ہے، ''جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف سے ون آن ون ملاقات کی جبکہ دوسرے مرحلے میں وفود کی سطح پر بات چیت ہوئی ہے''۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے رات گئے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ ''آرمی چیف کابل پہنچے تو ان کا استقبال افغان آرمی چیف نے کیا۔ اس موقع پر انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، جس کے بعد آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی صدارتی محل میں افغان صدر اشرف غنی سے ون آن ون ملاقات ہوئی''۔
اس موقع پر، افغان صدر کا کہنا تھا کہ ''افغانستان اور پاکستان دوست ممالک ہیں جو مل کر امن اور استحکام کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں''۔
ان ملاقاتوں میں خطے کی سکیورٹی صورتحال اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق، ''اس موقع پر طویل المدت امن کے قیام، مشترکہ خطرات کے خلاف تعاون، انسداد دہشت گردی مہم میں ایک دوسرے سے تعاون اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کو روکنے کی حکمتِ عملی، انٹیلی جنس معلومات کے تبادلہ، تجارت اور عوام کے ایک دوسے سے روابط پر بات چیت کی گئی''۔
پاکستانی آرمی چیف نے افغان حکومت کو انسدادِ دہشت گردی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے استعداد کار بڑھانے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق، دونوں فریقین نے افغانستان میں امن کے لیے امن کے ماحول اور سیاسی عمل کے فریم ورک پر اتفاق کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق، ''ملاقات میں مستقبل میں غلط فہمیوں کے خاتمے، ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور امن و استحکام کے لیے مختلف سطحوں پر مذاکراتی عمل کو ریگولر بنیادوں پر جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا''۔
اس ملاقات میں پاکستان کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل نوید مختار، پاکستانی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور افغانستان میں پاکستان کے سفیر شریک تھے، جبکہ افغانستان کی طرف سے افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ نائب صدر، فرسٹ ڈپٹی ایگزیگٹو آفیسر، سیکنڈ ڈپٹی چیف ایگیزیگٹو، قومی سلامتی کے مشیر، افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس کے سربراہ، وزیردفاع،وزیر داخلہ اور پاکستان میں افغانستان کے سفیر بھی شریک تھے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا گذشتہ سال آرمی چیف کا عہدہ سبنھالنے کے بعد افغانستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ یہ دورہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے نئی افغان حکمت عملی کے اعلان کے بعد مزید اہمیت کا حامل ہے ''کیونکہ پاکستان نے امریکی صدر کی اس حکمت عملی کو مسترد کیا ہے اور پاکستانی آرمی چیف نے اس حوالے سے کئی بار اس بات کو دہرایا ہے کہ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور پاکستان سے 'ڈومور' کا مطالبہ کیا جارہا ہے، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے لیے 'ڈو مور' کیا جائے''۔
آرمی چیف کا دورہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تلخی دیکھنے میں آئی ہے اور دونوں ممالک اپنے اپنے ممالک میں دہشت گردی کے واقعات پر الزامات ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں، جبکہ افغان حکومت افغانستان میں لڑنے والے طالبان کی پشت پناہی کا الزام پاکستان پر عائد کرتی رہی ہے جس کی پاکستان نے ہمیشہ تردید کی ہے۔
پاکستان بری فوج کے سربراہ اتوار کو افغانستان کے ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے۔
اس سے قبل، فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کے جاری کردہ بیان کے مطابق، جنرل باجوہ اس دورے میں افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ اپنے ہم منصبوں سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات شدید تناؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں اور اسلام آباد اور کابل کی طرف سے ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے الزامات نے باہمی اعتماد کو گزند پہنچاتے ہوئے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔
پاکستان جہاں سرحد کی موثر نگرانی اور مبینہ طور پر افغان سرزمین پر پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے سے کابل سے شاکی ہے تو وہیں اسے یہ شکایت بھی ہے کہ افغانستان اس کے روایتی حریف اور مشرقی پڑوسی بھارت کو اس کے بقول اپنے علاقوں میں پاکستان مخالف سرگرمیاں کرنے کے لیے کھل کھیلنے دے رہا ہے۔
افغانستان بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود ان عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس اقدام نہیں کر رہا جو افغان علاقوں میں تخریبی کارروائیاں کرتے آ رہے ہیں۔
دونوں ملک ایک دوسرے کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
افغان عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات سے قطع نظر اپنے تعلقات اس سے دوستانہ اور برادرانہ رکھنے چاہیئں اور بھارت ان کے بقول کسی طور پاکستان کے خلاف درپردہ جنگ کے لیے افغان سرزمین استعمال نہیں کر رہا۔
نئی دہلی بھی ان پاکستانی دعوؤں کو رد کر چکا ہے۔
مبصرین کے خیال میں خطے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ کابل دوطرفہ اعتماد سازی میں ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔